Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Jaan Episode 2 By Ana Shah - Daily Novels

 ناول #جان 

ناول نگار #انا شاھ

قسط# نمبر 2 

دا میرشاہ لارک شدید غصے میں ہونے کے باوجود اپنے

 حواس  پر قابو رکھا ہوا تھا ۔وہ سنگل سیٹر صوفے سے اٹھ کر انیلا اور عینی کی طرف بڑھا ۔دا میرشاہ لارک عینی اور انیلا کو کینہ توز نظروں سے گھور رہا تھا عینی اور انیلا کا اس کے دیکھنے کے انداز سے ہی خون خشک ہو گیا تھا ۔اینی جلدی سے بولی دیکھیں دامیر بھائی  اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے وہ ہمیں بنا بتائے ہی جنگل کی طرف چلی گئی ۔دامیر نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر  ضبط کیا غصہ تو اسے ان پر بھی آ رہا تھا کہ وہ اتنی لا پروا تھیں۔ نفیس شاہ لارک دامیر کا غصہ دیکھ چکے تھے انہوں نے دامیر کوکول ڈاؤن رہنے کے لیے کہا  ۔ ۔ ۔ 

نفیس بیگم بھی سر پکڑے صوفے پر بیٹھی تھیں۔ اور چور نظروں سے نفیس شاہ لارک کی طرف دیکھ رہی تھیں جو انہیں مسلسل اگنور کر رہے تھے نفیس بیگم کے خیال میں کہیں نہ کہیں ان کی بھی غلطی تھی کیونکہ وہ اپنی بیٹی پر اتنی توجہ نہیں دے سکی تھیں اسی دوران دامیر ہیڈ آفس فون کر چکا تھا اور اسے اضافی نفری چاہیے تھیکیونکہ جو لوکیشن آئینی اورا نیلا نے انھیں بتائی تھی اس کے مطابق دا میر شاہ کو پورا یقین تھا کہ وہاں پر ایک گروہ ہےوہ بہت عرصے سے اس گروپ پر کام کر رہے تھے اس گروہ کو سیاسی بندوں کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے اتنے عرصے سے پولیس اس گروپ پر ہاتھ نہ ڈال سکی تھی لیکن اب بات ان کے گھر کی عزت کی تھی د امیر شاہ لارک پولیس فورس کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔جاتے ہوئے وہ نفیس شاہ کو دلاسہ دینا نہیں بولا تھا عینی اور انیلا جون اور ابراہیم کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوچکی تھیں اور بہت پیشمان تھیں  نہ وہ ضد کرتی اور نہ ہی امروز یہ اس مصیبت میں پھنستی  ۔

 ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

دامیر  شاہ لارک بڑی مشکل سے اپنے اوپر کنٹرول کیے اپنی فورسز کے ساتھ جنگل کی طرف سفر کر رہا تھا رات کب کی ہو چکی تھی یہ سوچ سوچ کر ہی اس کو ہول اٹھ رہے تھے کیا اتنے بڑے جنگل میں امروزیہ اکیلی تھی اور شاید وہ ان غنڈوں  کے ہاتھ بھی لگ چکی ہوگی پہلے دیکھ  چکا تھا دامیر  شاہ کو پتا تھا کہ امر روز یا اس کی ہےاور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ بچپن سے ہی اسے اس کے نام کر دیا تھا لیکن ایم روز یہ اس بات سے نہیں واقف تھی اور شاید یہ بات اس کے لیے بہت بڑا جھٹکا ثابت ہونے والی تھی کیونکہ وہ دا میرشاہ کو ذرا سا بھی پسند نہیں کرتی تھی ۔اور دا میر شاہ کی پسند اور ناپسند ایک طرف وہ اس کی عزت تھی اور بچپن کی منگھ تھی اور لارک اپنی منگھ نہیں   چھوڑا کرتے.

🌸🌸🌸🌸



دا میرشاہ لارک اپنی فورسز کے ساتھ جنگل میں داخل ہو چکا تھا ۔اس کے دھیان میں صرف امروز یا تھی ۔پولیس نے سارے جنگل کو کور کیا تھا ۔جنگل سے باہر کوئی نہیں جا سکتا تھا ۔ان کی تیاری مکمل تھی وہ ایک بڑا حملہ کرنا چاہتے تھے کیوں کہ دانیال شاہ لارک کے والد کا تعلق بھی سیاست ہے تھا اور وہ اوپر  سے آرڈر لے کر ہیں یہاں پر کاروائی کر رہا تھا ۔فورسز بنا آواز کے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں دامیر لاڑک سب سے آگے تھا وہ کافی اندر تک آ چکے تھے لیکن ابھی تک ا نہیں کوئی سراغ نہیں ملا تھا اور نہ ہی کوئی انسان نظر آیا تھا اور نہ ہی ان کا اڈہ نظر آ رہا تھا ۔اچانک امیر شاہ کو درختوں کے جھنڈ میں کچھ جھونپڑے  نظر آئے تھے ۔وہ سب اور زیادہ چو کنا ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ 


🌸🌸🌸

سردار بادشاہ امروزیہ کو لیکر اپنے اڈے پر پہنچ چکا تھا 

۔درختوں کے جھنڈ کے اندر انہوں نے اپنا یہ اڈالکڑیوں  سے بنایا تھا ۔سردار پاشا نے انتہائی آرام سے امروزیہ کو ‏بیڈ پر لٹایا ۔روزی ابھی تک بے ہوش  تھی۔سائیڈ پر رکھے پانی کے گلاس سے اس نے امروزیہ کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ روزی آہستہ آہستہ ہوش کی دنیا میں قدم رکھنے لگیں ۔سردار بادشاہ کوئی اچھا انسان نہیں تھا اس نے چھوٹی سی عمر میں ہی کرائم کی دنیا میں قدم رکھ لیا وہ غلط لوگوں کی صحبت میں جاکر ایک گینگسٹر بن گیا تھا۔اور اب اس پر کوئی ہاتھ  ڈالنے سے پہلے سو بار سوچتا تھا۔اس کی زندگی میں بہت سی عورتیں آئی ۔لیکن وہ اس معاملے میں بہت روڈ تھا آج تک اس کے دل کو کوئی بھی نہیں بھائی تھی امروز یہ کوپہلی نظر میں دیکھتے ہی اس کا دل بے ایمان ہو گیا ۔لیکن ابھی وہ اس لڑکی کی طرف سے شک و شبہ میں مبتلا تھا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

🌸🌸🌸


اس کے خیال میں یہ اس کے دشمنوں کی چال تھی اس کے اڈے تک پہنچنے کے لئے۔۔لیکن اس لڑکی کی معصومیت دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ غلط ہے ۔"یہ تم مجھے کہاں لاۓ ہو"  ؟روزی میڈم ہوش میں آ چکی تھی اور ساتھ ہی اس نے اپنی زبان کے جوہر دکھانے شروع کر دیے تھے "دیکھو میں تم سے کوئی ڈرتی ورتی نہیں ہوں ۔اور تم مجھے جانے سے نہیں روک سکتے "امروزیہ بیڈ سے اتر کر دروازے کی طرف بڑھی تھی جب سردار پاشا اس کے راستے میں آ گیا تھا اور امروزیہ نےکڑے تیو ر وں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اسے وارن کیا ۔ سردار پاشا نے  اس کے انداز کوملاحظہ کیا ۔اور اس کے اس طرح بولنے سے پوری طرح محظوظ ہوا   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 


۔سردار پاشا اپنی دنیا میں ظالم ترین انسان مانا جاتا تھا ۔ کبھی مسکرا کر بات نہیں کی ۔لیکن آج اس لڑکی کے انداز نےاسے  مسکرانے پر مجبور کر دیا   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

🌸🌸🌸

اامروزیہ اسے کہہ تو چکی تھی لیکن وہ اندر ہی اندرڈر  بھی رہی تھی وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلیاں دے رہی تھی کہ اگر اس نے ہمت ہاری تو وہ اس پر حاوی ہو جائے گا وہ آجکل کی جنریشن کی لڑکی تھی اور اس بات کا تو اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ کتنی بڑی مصیبت میں پھنس چکی ہے اور اس جنگل میں ان لوگوں نے یہاں پر ڈیرہ کیوں ڈالا ہوا ہے اور یہ کون لوگ ہیں روزی نے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاۓ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

🌸🌸🌸


۔اسے کافی ویکنس بھی محسوس ہوئ۔ اسے اپنی ویکنس  سے زیادہ یہ صورتحال  خطرناک لگی ۔سردار پاشا اس کے چہرے کے تاثرات سے حظ اٹھا رہا تھا ۔"اور کچھ "سردار پاشا نے بڑے انداز سے کہا  ۔  ۔ امروزیہ کواس کا انداز خطرے کی گھنٹی لگا۔ اسے انیلا اور عینی  پر بھی غصہ آیا۔ جو پتہ نہیں کہاں مر گئی تھیں (اس کے خیال میں )۔۔۔وہ پھر دروازے کی طرف بڑھی اس بار سردار پاشا اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا اور صرف ہاتھ ہی نہیں پکڑا تھا اسے واپس بھی کھینچا تھا ۔اور اپنے مقابل کھڑا کیا "۔نام تو تمہارا مجھے نہیں پتاپر آج سے تم میری جان ہو "اور جان کو اپنے پاس ہی رکھا جاتا ہے تم بھی بھول جاؤ کہ  میں تمہیں کبھی واپس جانے دوں گا میں تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا  سو بے بی قول  ڈاؤن !کھانا بس آہی رہا  ہے چپ کر کے کھانہ کھاؤ اور جانے کا خیال دل سے نکال دو " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

امروز یہ تو اس کی اتنی لمبی تقریر سن کر سکتے میں آ گئی تھی اور جان لفظ  پر اس نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا یونی میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اس کا راستہ روک لے اور اس طرح کی بد تہذیبی اس کے ساتھ کرے یا اس طرح کا لفظ  استعمال کرے ۔سب کو ہی پتا تھا کہ وہ کس کی بیٹی ہے اسی لیے کبھی کسی کی ہمت نہیں پڑ ی تھی کہ اسے کوئی تنگ کرے .امروزیہ کا  لارکوں والا خون ابلنے لگا ۔اور اس کا دل کیا کہ اس کا منہ توڑ دے ۔پر ابھی وہ اس کے رحم وکرم پر تھی ۔اس کے باوجود اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔

🌸🌸🌸🌸


سردار پاشا نے اس کے اس انداز کو بھی انجوائے کیا ۔اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر آگے کو جھکا "ہر انداز ہی جان لیوا ہے "امروز یا اپنا منہ پھیر کر کھڑی رہی ۔اس کے خیال میں اسے کچھ بھی کہنا فضول تھا ۔اسی ٹائم میروکمرے میں داخل ہوا ۔سردار !ہم پر حملہ ہو چکا ہے اور ہم بری طرح پھنس چکے ہیں پولیس ہمارے سروں پر پہنچ چکی ہے ۔بڑے صاحب نے آپ کے نکلنے کا انتظام کر دیا ہے آپنکلے  پر ان سے ہم خود ہی نمٹلیں گے ۔سردار پاشا نے جلدی سے امروزیہ کا ہاتھ پکڑا تھا ۔اور باہر کی طرف بڑھا ۔سردار اس لڑکی کو یہیں پر چھوڑ جائیں ۔میرو کی  اس بات پر پاشا نے ا سےکڑے تیورو ں سے دیکھا تھا ۔میرو  یہ لڑکی میرے ساتھ ہی جائے گی ۔سردار کی اس بات پر میرو حیران ہوا تھا کہ سردار کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں ۔لیکن اس نے کچھ نہیں ۔کہا وہ لوگ جھونپڑوں سے نکل کر خفیہ راستے کی طرف جا رہے تھے ۔اس بات سے بے خبر کے دا میرشاہ لارک بھی ان کے انتظار میں ھے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔  

🌸🌸🌸

د امیر شاہ انہیں دیکھ چکا تھا۔اور ان کے سر پر پہنچ چکا تھا  ۔امروزیہ ا سے دیکھ کر خوش ہو گئی ۔اس سے پہلے کہ پاشا کچھ  سمجھتاامروزیہ نے اپنا ہاتھ چھوڑ آیا  اور دامیر شاہ کی طرف بھاگی ۔اور اس کے پیچھے جا کر۔ کھڑی ہو گئی ۔پاشا  اس کی پھرتی دیکھ کر حیران رہ گیا  

امروز یہ کی وجہ سے پاشا پولیس کی گرفت میں آ گیا تھا ۔امروز یہ کود امیر شاہ کی طرف جاتا دیکھ کر پاشا  کو بہت غصہ آیا اور وہ وہیں رک گیا ۔اس کے آدمیوں نے اسے بہت کہا کہ سردار اس معاملے کو پھر دیکھیں گے پروہ  وہیں ٹھہر گیا ۔امروزیہ کودامیر ۔ شاہ گاڑی میں بٹھا چکا تھا ۔پاشا پولیس کے قبضے میں تھا ۔اور پلیس وین کے اندر ہی سے وہ دا میرشاہ اور امروز یہ کو وہاں سے نکلتا ہوا دیکھ رہا تھا اور یہ سب دے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔بلاشبہ اس کا انتقام بہت خطرناک ہونے والا تھا اور امروز یہ کو بھی اس نے سزا دینی تھی امروزیہ کو وہ باورکر واا چکا تھا کہ وہاں سے نہیں جانے دے گا اور وہ نہیں جائے گی لیکن اس کے باوجود وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گئی ۔اس نے اس کی حکم عدولی کی تھی ۔اور اس کی سزا وار تھی ۔۔۔۔۔۔اچانک  پاشا کے چہرے پر مسکراہٹ ای اور اس کے ہونٹ ھلے "انٹرسٹنگ "!۔۔۔۔۔۔۔۔گاڑیاں پولیس سٹیشن کی طرف روانہ ہوچکی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )

Post a Comment

1 Comments