Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak By Fozia Kanwal Episode 14 - Daily Novels

ناول۔۔لاحاصل سے حاصل تک۔

ناول نگار۔۔۔فوزیہ کنول۔۔۔کنگن پور

قسط#14


      ”اچھا تم عائشہ باجی کی شادی پر تو جا رہے ہو ناں۔۔۔۔۔۔؟

تمہیں چھوٹا سا اشارہ کیۓ دیتا ہوں وہاں تمہیں تمہارے سارے سوالوں کا جواب مل جائےگا۔

 سالار نے بیگانگی سے کہا اور كمرے کی جانب بڑھ گیا۔

 مگر شاہجہان کو سوالوں کے بھنور میں بھٹکتا چھوڑ گیا 

کیا کہا بھئیا نے وہاں مجھے میرے سارے سوالوں کا جواب مل جاۓ گا۔

 عائشہ باجی کی شادی سے میری اور کنول کی محبت کا کیا تعلق ہے۔۔۔؟

 کل کنول کی بہن عائشہ کی شادی تھی مگر شاہجہان  کے لیۓ رات گزارنا بہت مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔“

وه پل پل کانٹوں کی راہ گزر سے سفر کر رہا تھا نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

 وه کھڑکیوں سے بار بار  باہر کی جانب دیکھ رہا تھا کہ کب صبح ہو اور وه کنول کے گھر پہنچے۔۔۔۔“

اور  اسے اس کے سوالوں کا جواب مل جاۓ ۔۔۔۔“

سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے اور اس کی جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔“

وہ کبھی اپنے کمرے کی روشنی کو تاکنے لگتا تو کبھی بے وجہ كمرے کی چیزوں کو سمیٹنے لگتا ۔۔۔۔“

جب کمرے میں ہر چیز موجود ہوتے ہوئے بھی کوئی تدبیر نہ سوجی تو اس نے اپنے  بوجھل قدم باہر نکالے  چند قدم کے فاصلے پر ہی سالار کا کمرہ تھا  ۔۔۔۔“

  اسے سالار کے كمرے کی روشنی جلتی ہوئی دکھاٸی دی جو کہ شاید اسی کی آمد کا ہی منتظر تھا۔۔۔۔“

کیامیں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔؟ شاہجہان نے اجازت چاہی۔  

ارے کیوں نہیں اب میرے کمرے میں آنے  کے لئے بھی تہیں اجازت کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ ؟

ابھی تک جاگ رہے ہیں آپ رات کے بارہ بج چکے ہیں۔۔۔“ نہیں یار نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔۔“

 اسکے لہجے میں ٹھہراٶ تھا۔۔۔۔۔“

 جیسے  وہ کسی کا منتظر ہو۔۔۔۔“

 جیسے کسی بھی لمہے دروازہ کھلنے کا انتظار ہو اسے۔۔۔۔۔“

 جیسے اسے یقین ہو کہ میں اس کے پاس ضرور آٶنگا۔۔۔“

 ارے تم بھی تو جاگ رہے ہو چھوٹے میاں۔۔۔۔“

 تمہارے جاگنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں۔۔۔؟  

اس کے لہجے میں طنز تھا وه بولنے کے ساتھ ساتھ ہنسے بغیر نا رہ سکا ۔۔۔۔“

بھئیا یقین مانو جب سے آپ میرے کمرے سے یہ کہہ کر باہر نکلے ہیں ناں کہ عا ئشہ کی شادی پر  مجھے میرے سوالوں کا جواب مل جاۓ گا تب سے ایک پل بھی چین نہیں مل رہا۔۔۔۔۔“

 آپکی قسم بھائی ہر طرف اسکاچہرہ دکھائی دیتا ہے جب سے اس سے محبت ہوئی ہے ”مانو نیند سے تو دشمنی سی ہوگٸ ہے“

 کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا ۔۔۔۔“

اسکا بولنے کا انداز۔۔۔۔“

اسکی چھوٹی چھوتی باتیں میری زندگی کا حصہ بن گئی ہیں۔۔۔۔“ 

اسکا شوخ نظروں سے مجھے دیکھنے کا انداز مجھےگھائل کر دیتا ہے۔۔۔۔“


سخن میں بات کرتی ہے __

وہ غزلوں میں مسکراتی ہے __

اندھیروں سے الجھتی ہے __

دیوں میں جگمگاتی ہے __

گھٹن میں مسکراتی ہے _

وہ اپنا دکھ چھپاتی ہے _

وہ پکے حوصلے کی ہے __

سبھی رسمیں نبھاتی ہے _

وہ اچھے سر میں ہنستی ہے _

سماعت کو لبھاتی ہے _

وہ ہنستی ہے کبھی کھل کر __

تو وحشت جاگ جاتی ہے _

وہ صحرا کی سہیلی ہے _

اسے بارش رلاتی ہے __

وہ زرش جہاں کی رونق__

ہر موڈ میں سب کو ہنساتی ہے __


      ”وہ معصومیت سے بولتا چلا جارہا تھا اور سالار اسکی باتیں پاس بیٹھے کسی اجنبی کی طرح سن رہا تھا۔۔۔۔۔“

۔شاہجہان تم میری مانو تو کنول کو بھول جاٶ۔۔۔۔۔“

سالار نے زبردستی اپنے لفظوں کا پگھلتا ہوا سیسہ شاہجہان کے کانوں میں انڈیلا۔۔۔۔“

بھیا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔؟

آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔۔۔۔۔؟

شاہجہان نے خود پر قابو پاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔“

جانتا ہوں اسی لیے تو پیار سےسمجھا رہا ہوں۔۔۔۔“

بھاٸی کنول میں میری جان بسی ہے،وہ میرا دن ہے ،وہ میری رات ہے۔۔۔۔۔۔“

مجھےاسکے بنا کچھ بھی دکھاٸی نہیں دیتا،میرےبس کی بات نہیں بھیا مجھے ہر طرف بس وہی دکھاٸی دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔“

۔۔۔۔۔کنول میری زندگی بن چکی ہے بھیا میں چاہ کر بھی اسے بھول نہیں سکتا۔۔۔۔“


دعائیں یاد تھی جتنی 

وہ ساری پھونک لی خود پر 

وظائف جو بھی آتے تھے

وہ سارے پڑھ لیے میں نے 

مگر پھر بھی میرے دل میں 

سکوں داخل نہیں ہوتا 

تمھیں ہجرت ہی کرنی تھی 

تو کچھ میرا بھی کر جاتے 

کسی کو توڑ کر ! سنتے ہیں 

کچھ حاصل نہیں ہوتا

کسی کے چھوڑ جانے سے 

کسی کی جان جائے تو 

مجھے فتویٰ یہ لینا ہے

کیا وہ قاتل نہیں ہوتا؟۔

                

                   ”میں تو سوچتا ہوں نجانے یہ رات کیسے گزرے گی۔

مگر یہ رات بھی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور یہ بے چینی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔۔۔۔“

شاہجہان بے چینی اور بے سکونی کے عالم میں بولا۔

تو بھٸی مجھ سے کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔؟

بھیا آپ میری اس میں کوٸی مدد کرسکتے ہیں۔۔۔۔؟

شاہجہان نے التجاٸیہ کہا۔

ہاں بھٸ کیوں نہیں۔۔۔۔۔“

سالار مسکراتے ہوۓ بولا۔

بھٸ تمہاری بے چینی ختم کرسکتے ہیں اور اسی وقت۔

وہ عجیب سی شیطانی ہنسی ہنسا۔

ہاں۔۔۔۔۔کیا سچ بھیا۔۔۔۔پھر بتاٶ ناں بھیا۔۔۔۔“

کیا کنول مجھ سے پیار کرتی ہے۔۔۔۔؟

وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح ضد کرنے لگا۔۔۔۔“

سن سکو گے۔۔۔۔؟

ہمت ہے اتنی۔۔۔؟

سالار نے اکتاۓ لہجے میں شاہجہان کو پیچھے دھکیلتے ہوۓ کہا۔

جی بھیا۔۔۔۔آپ بولیں تو۔۔۔۔“شاہجہان کا ضبط جواب دے رہا تھا۔۔۔۔حوصلے ٹوٹ رہے تھے۔

بھیا میرے صبر کا امتخان نہ لیں پلیز۔

اچھا تو سنو پھر۔۔۔۔میں بھی تمہاری یہ روز روز کی باتوں سے تنگ آگیا ہوں۔۔۔۔۔۔“

شاہجہان کنول تم سے نہیں۔۔۔مجھ سے پیار کرتی ہے۔۔

صرف اور صرف مجھ سے۔

سالار نے بڑے اعتماد کے ساتھ سینے پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔“


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔“

Post a Comment

0 Comments