Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat By Sidra Mohsin Episode 9 - Daily Novels

منقبت 

سدرہ محسن

قسط #9

کردار 

عافیہ 

رافیہ 

روحیل 


تینوں جب اس گھر میں داخل ہوۓ تو وہں رہنے والے دو مرد جن کا قد دراز تھا اور کافی ہٹے کٹے تھے وہ عافیہ اور رافیہ کا سر تا پا مشاہدہ کرنے لگے جیسے وہ ان کے کپڑوں کے اندر جھانک رہے ہوں عافیہ اور رافیعہ کے لئے یہ کوئ نئ بات نہیں تھی۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ سمٹ گئیں کیونکہ وہ اب اور حوس کا مشانہ نہیں بننا چاہتی تھیں اپنے جسم کو کسی کے لئے کھلونا بننے نہیں دینا چاہتی تھیں وہ اپنے مرداد جسم میں کچھ بھی محسوس نہیں کرتی تھیں لیکن پھر بھی ہر بار ایسی کھا جانی والی نظر ان کے وجود کو لہو لہان کر دیتی تھیں ۔۔۔۔

کیونکہ ضروری تو نہیں کہ اگر کوئ بّرائ اپ کا پیچھا کرتی رہے تو اپ مستقل اسکے روبرو ہوتے رہیں اپ اس سے ایک قدم پیچھے بھی تو ہٹ سکتے ہیں ۔۔اپ ایک نیا راستہ بھی تو چّن سکتے ہیں ۔۔۔اپنے مردار جسم میں جان بھی تو بھر سکتے ہیں۔۔۔

خیر ۔۔۔ ان دونوں لڑکیوں کے چادر سے خود کو ڈھانپنے اور اپنے پاؤں کی انگلیاں سکڑنے ہاتھوں کی نگلیوں میں دوپٹہ گھمانے سے ان دونوں لڑکوں کو یہ تو باور کروا دیا گیا تھا کہ نہیں۔۔۔۔ تم ہمارے قریب نہیں آسکتے ۔۔۔

چونکہ وہ مشاہدہ کر رہے تھے ان کے پور پور کا ان کی ہر حرکت کا تو ان کی بھی ہمت نہ ہوئ 

مرد مجبور ہوتا پے اپنے احساس سے اکثر سکون حاصل کرنے کو۔۔۔ مگر جو عورت ایک قدم پیچھے ہٹ جاۓ تو کبھی طلب پوری کرنے کو آگے نہیں بڑھتا ۔۔۔

ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔۔ وہ پیچھے ہٹ گیئں تو وہ دونوں آگے نہ بڑھے ! روحیل سے کچھ ایڈوانس لیا اور ان کو ایک کمرہ کراۓ کے لئے دے دیا ۔۔۔

انہوں نے اپنا سامان اٹھایا اور دیے گۓ کمرے میں چلے گۓ ان کا اس کمرے میں ایک قدم رکھنا تھا کہ جیسے وہ اپنی جنت میں داخل ہو چکے ہوں ان کے چہرے پر طفل مانند مسکراہٹ تھی آج وہ پہلی بار مکمل طور پر خوش تھے ان کے مسکرانے میں بناوٹ نہ تھی ۔۔وہ بس کمرہ دیکھتے رہے کئ گھنٹوں کبھی کھڑکی کھول کر دیکھتے گہری سانس لے کر الماری میں کپڑے سجاتی ہیں بزار سے کچھ برتن کچھ مصالحے یعنی ضرورت کا سامان لاتی ہیں ۔۔۔

سارا دن گزر جانے کے بعد پھر سے ایک۔نصف شب آتی ہے لیکن اس بار یہ نصف شب ہر بار جیسی نہ تھی آج کچھ خاص تھا کتنا سکون کتنا اطمینان تھا وہ چاند کو اپنے سے دور نہیں بلکہ قریب محسوس کر رہی تھی ۔۔ اس کو حقیقی معنوں میں زندگی آزادی سکوں اور خوشی کا مطلب معلوم ہو رہا تھا وہ پھر سے چاند کو تک رہی تھی اور تکتی جا رہی تھی پھر سے اشکبار تھی لیکن اج وہ اشک بھی ویسے نہ تھے!

 غم کے بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد صاف فضا میں سانس لیتے اور بارش کی چند بوندوں سے خود کو نہاتے گل و لالہ کی ایک ایک پتی سے  مستی و شادابی سے ٹپکنے والی بوندیں تھیں جو اس کے چہرے جلا نہیں نکھار رہی تھیں


عافیہ دل ہی دل میں جب رب سے شکر کے کلمات ادا کر رہی تھی اپنی آپ بیتی کو آخری بار یاد کر کے اداس اور پھر نئ زندگی عزت و حفاظت مان کے ساتھ جینے کی خواہش کا گماںکرکے مسکرا رہی تھی وہ اور چاند باہم راز و نیاز میں مشغول تھی کہ اچانک کسی کے اس کے کامدھے پر ہاتھ رکھ فینے سے وہ چونک گئ 


اس نے خوفزدہ ہو کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹھنڈی سانس لی جب رافیعہ کو اپنے روبرو پایا پھر وہ اس کے گلے لگ گئ اور اس کو یاد کروانے لگی کہ دیلھو کہا تھ نہ تم۔سے کہ ہماری زندگی کی اس کالی رات کی ایک صبح ہوگی دیکھو کیسے اس اندھیری رات میں بھی جگ مگا رہے ہیں ہم۔۔۔۔


دیکھو غلاظت سے دور پاکیزہ روشنی سب کی طرح ہم پر بھی پڑ رہی ہے تم کتنی مایوس تھی رافیعہ 


رافیعہ اس کو محبت سے خود سے دور کرتی اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی کہتی ہے ہاں ! میں مایوس تھی اور تم پرامید ۔۔۔ اور اسی لیے اج ہم یہاں ہیں  ان جانوروں کے پنجوں سے دور رب کی رحمت کے ساۓ میں ۔۔۔

عافیہ ویسے انسان کتنا ناشکرا ہے نا۔۔۔


جب ہم تکلیف میں تھے کیسے یاد کرتے تھے بار بار خدا کو آدھی رات یا دن کا آدھ کو ہمیں جب بھی موقع ملتا سجدہ کرتے تھے اور اب دیکھو نا کوئ شکر کیا نہ کوئ سجدہ ۔۔۔


عافیہ نے رافیعہ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھا اور کہا ارے واہ ! اج کتنی پیاری اور سمجھداری کی بات کی اپ نے ۔۔۔

آؤ سجدہ شکر کرتے ہیں تاکہ ہم پر تاریکی پھر سے نہ چھاۓ۔۔۔

وہ دونوں وضو کرتی ہیں اور رب سے ملاقات کی تیاری کرتی سجدہ سجود میں مگن دعاؤں میں اس سکون کے ہمیشہ رہنے کی دعا کرتی ہیں ۔۔۔

اسی طرح ہر دن گزرتا ہے وہ رب کے قریب ہوتی ہیں اور اپنے ماضی کے بوجھ میں کمی محسوس کرتی ہیں اور وہ دو مرد جو ان کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے وہ ان کی عزت کرتے اور نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔۔۔

سچ ہی تو ہے رب ہی عزت دینے والا ہے اور کوئ چوراہے پر بھی اپ کی عزت لٹکا دے ےو جب رب نے چاہنا ہے کہ اپ کو عزت ملے تو اپ کو عزت ہی ملے گی بیشک ۔۔۔


ان لوگوں کو کام کرنے کی عادت نہیں تھی اور ۔۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جس رزق کی ضرورت ہوتی ہے وہ کما کر ہی لایا جاسکتا ہے محنت کرنے کے بعد پھر اس ایک ایک نوالے کا ذائقہ اور مزیدار ہو جاتا ہے 


تو وقت کے ساتھ ان کے پاس بھی طیسوں کی قلت ہوئ تو کام کرنے کا سوچا انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ محنت کریں گے مگر کسی کو اپنا جسم نہیں فراہم کریں گے ۔۔۔۔


جاری ہے۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments