Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat By Sidra Mohsin Episode 8 - Daily Novels

قسط # 8

منقبت

سدرہ محسن

کردار  

عافیہ 

رافیعہ

امیر زادے

روحیل


وقت #شب کا نصف پہر 


کیسی عجیب بات ہے نا ! وہ مرد جو عورت کو ہجوم میں پاؤں کی جوتی جیسے نام سے نوازتا ہے وہ تنہائ میں انہی پاؤں کو سہلاتا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں نا!      مرد سے بنا ہے معاشرہ عزت بھی اسی کی ہے۔۔۔۔۔۔ فقط ایک غسل سے پاکیزہ ہوجاتا ہے اور وہ عورت جس کے بنا بھی معاشرے کی تکمیل ممکن نہیں۔۔۔ وہ اپنی خواہش کے اظہار پر بھی گنہگار کہلاتی ہے 

ہم لوگ کتنے عجیب ہیں کہتے ہیں کہ ظاہر سے باطن کا اندازہ مت لگاؤ!

 لیکن کرتے ایسا نہیں ہیں ہم ظاہر دیکھتے ہیں پھر س کو خیالات میں اپنی من پسند شبیہ میں ڈھالتے ہیں پھر اپنے اندازوں کے مطابق اس کو عزت دار یا بے عزت لوگوں میں شامل کر دیاجاتا ہے 

کوئ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ یہ جو ۔۔۔ ظاہری لباس پہنے ہوے ہیں ناجانے کتنی تکالیف کو اپنے اندر سماۓ ہوۓ یے 


یہ ان لڑکیوں کی سسکتی آہیں اونچے قہقہے ضبط کرتے لب بے رونق آنکھیں اور بنا کچھ کہے۔۔۔۔ بہت کچھ ظاہر کرتے چہرے ۔۔ سے بے خبر رہتے ہیں۔۔۔ کیونکہ ہم تو خود میں مگن لوگ ہیں اپنا اندر سنوارنے کی بجاۓ دوسروں پر تنقید کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

عافیہ رافیعہ اور روحیل کو وہ امیر زادے جب اپنے فارم ہاؤس لے کر گۓ تو ۔۔۔ روحیل کو ایک الگ کمرے میں سامان کے ساتھ بھیج دیا اور عافیہ رافیعہ کو اپنے ہمراہ دوسرے کمرے میں لے گۓ 

اور ناجانے کب صبح سے پہر گزرتے شب تک جاپہنچے ۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں بھوکی تھیں اور ان کے جسم سے وہ امیر زادے اپنی بھوک مٹاتے رہے لیکن سیر نہیں ہو رہے تھے 

انہیں نوچتے ان کی روح کو تڑپاتے ان کی بے بسی کو اپنی طاقت سے روندتے ان کے پور پور کو نوچتے خود کو سکون دیتے رہے 

وہ ہر روز ایسا کرتے ان سے کام کرواتے ان کے وجود سے کھیلتے اور پھر کسی ایک وقت سوکھی روٹی عنایت کرتے۔۔۔۔ دل چاہتا تو کھانا اچھا دیتے دل چاہتا تو ان کو بھوکا رکھتے ۔۔۔ جب تک جس وقت تک دل چاہتا اپنے وجود کی تسکین کی خاطر ان کے وجود کو کھلونا سمجھتے اپنی من مرضی مطابق کھیلتے ۔۔۔

ہاۓ!۔۔۔۔۔۔۔ 


تو نے دیکھی ہی نہیں ملاوٹ لفظوں کی 

تونے سنی ہی نہیں روح کریدتی کہانی


ایک شب کے نصف پہر عافیہ اپنے زخمی وجود کو سنبھالتی اپنے کمرے کی کھڑکی میں چاند کو تکتی  ہے۔۔۔۔ شکایت لبوں سے ادا نہیں کرتی بلکہ آنسوؤں کی زبانی ہر آپ بیتی کہ گئ۔۔۔۔ اس کے آنسو اس کے چہرے پر آگ معلوم ہوتے جو اس کے چہرے کی بناوٹ کو جھلسا رہے تھے اور وہ اس جھلسنے سے پر سکون ہو رہی تھی کیونکہ اسی خوبصورتی نے اس کے اندر کی چاہ کا گلا گھونٹ دیا تھا !

وہ تو رب کے نزدیک ہونا چاہتی تھی مگر اس معاشرے کی نظر نے اسے کوٹھے کی شان اور مچلتے دلوں کے وجود کا سکون بنا دیا تھا ۔۔۔


وہ ہر شب وقت کے جلدی گزر جانے کا انتظار کرتی تھی ہر دن سورج کو دیکھتی ٹو اپنے گرد چھاۓ اندھیرے کے چھٹ جانے کی امید کرتی ۔۔۔روحیل بھی ان حالات سے ناخوش تھا اور وہ خوش ہوتا بھی تو کیسے ۔۔اسے بھی اسی طرح تکلیف میں رکھا گیا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ اسے اپنی روح کی قربانی نہیں دینی پڑتی تھی بلکہ وہ بھوکا رہنے نوکر بننے اپنی خواہشات کے مکمل نا ہونے کو ظلم مانتا تھا 

لیکن اب رہائ اس کو بھی چاہیے تھی ان حالات میں لڑکیوں پر ہوتے قہر کو دیکھ کر اسے بھی عزت کی طلب ہونے لگی تھی !

ایک آزاد زندگی کا خیال اسی بھی ستانے لگا تھا وہ بہت سوچتا تھا کہ ۔۔۔ جو وہ جی رہا ہے وہی مقدر ہے ۔۔۔۔

لیکن وقتاً فوقتاً عافیہ کی امید۔۔۔۔ رافیعہ کی گندگی میں رہ کر رب سے تعلق جوڑنے کی خواہش ۔۔۔۔۔ ان سب نے روحیل کا دل بھی بدل دیا تھا ۔۔۔


اب وہ تینوں اپنی مدت کے پوری ہونے کے دن گن رہے تھے ۔۔۔ وہ ہر دن یہ سوچ کر گزارتے کہ  ایک دن اور گزر گیا ۔۔۔ اور کتنے باقی ہیں۔۔۔ کیونکہ مدت پوری کرنا ان کی مجبوری تھی ورنہ اس کوٹھے کے سپاہی ان کی جان لینے میں ایک لمحہ نہ لیتے اور یہ رہے کمزور شکستہ کیسے کرتے مقابلہ ۔۔۔۔۔ یونہی مدت کے ختم ہونے کے انتظار میں  تین ماہ گزر گۓ ۔۔۔۔ 


ان عیاش امیر زادوں نے انہیں رہائ دے دی اور ان کو واپس چھوڑ کر آنے سے انکار کردیا ۔۔۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کیونکہ ان تینوں کی منزل ان کے منتظر تھی راہ تیار تھی ان کے قدموں کی آہٹ سے ان کا راستہ تلاشنے میں ان کی خیر خواہی۔ کرنے کو۔    ۔۔۔۔۔ 

وہاں سے نکلنے پر ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ایک دھیمی مسکان کے ساتھ۔۔۔ اور جو راستہ اس کوٹھے کی جانب جاتا تھا اس کے بالکل مخالف راستے کا چناؤ کیا ۔۔۔ اور بنا کچھ سوچے بس چلنے لگے ۔۔۔۔۔ اور چلتے گۓ ۔۔۔ ان کو دھوپ نے نہ ستایا نہ ہی موسم سے بیزار ہوۓ ۔۔۔۔۔۔تپتی دھوپ بھی مانو جیسے صبح کی ٹھنڈی آمد کی مانند تھی ۔۔۔ انہیں جھلسنا منظور تھا مگر وجود سے کھلواڑ کے انکاری ہو چکے تھے


ان گمنام راہوں پر چلتے چلتے ایک مکان نظر آیا جس پر لکھا تھا کہ کراۓ کے لیے خالی ہے

 ان کے پاس کچھ پیسے موجود تھے انہوں نے سوچا کہ کیوں نا یہاں بسیرا کیا جاۓ ایک نئ پہچان کے ساتھ اپنی من مرضی کرنے کو آزاد ۔۔۔۔

روحیل نے آگے بڑھ کر دستک دی۔۔۔۔ اور دروازہ کھلا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابرار نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عافیہ داخل ہوئ اس نے عافیہ کو گلے لگایا اور بتایا کہ رافیعہ کے ہاتھ کی انگلی میں جنبش ہوئ ہے  عافیہ باخوشی اس کے پاس گئ۔۔۔۔ 

اور اس کے ماتھے پر پیار کر کے اسے یقین دلانے لگی کہ کالے اندھیروں سے نہیں گھبراۓ ہم جب کوئ آس کوئ امید نہیں تھی رب کے سوا ۔۔۔ 

لیکن اج تو ابرار ہمارے ساتھ ہے دیکھو ہم اکیلے نہیں تو کیوں ہسی ایک شخص کے دل کے میل کی وجہ سے تم خود کو ہم سے جدا کر رہی ہو ؟۔۔۔ 

اور زور سے رونے لگی ابرار نے اسے  آسرا دیا اور سینے سے لگا کر خاموش کروایا اتنے میں ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوۓ اور ان کو کمرے سے جانے کو کہا تاکہ رافیعہ کا معائنہ کرسکیں ۔۔۔

۔۔ 

لیکن رافیعہ نے عافیہ کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments