Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Mera Ishq To Mera Khuda Hai By Noor E Saba Episode 3 - Monthly Novels

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،،

"میرا عشق تو میرا خدا ہے"

ماہانہ وار ناول،،

قسط نمبر 3

ازقلم، رائیٹر:نور الصباح،( جونیجو کوندھر)

رات کے نو بجے کا وقت تھا گھر میں نایاب بیگم کے ہاتھ سے بنے ہوئے لذت بھرے کھانے کی خوشبو کا راج تھا ہرسو بس خوشبو ہی خوشبو پھلیں ہوئیں تھی،

نایاب بیگم دسترخواں لگانے کی تیاری کر رہی تھی آج رات کے کھانے میں انہوں نے شاہ کی پسند کی ہر اک چیز بنائی ہوئی تھی، نایاب بیگم کو آج شاہ پہ بہت پیار آرہا تھا وہ انہیں خوش دیکھنا چاہتی تھی، وہ شاہ کو گیسٹ روم میں بھیج چکی تھیں کہ وہ فریش ہو جائے اور تھوڑا آرام کرلیں جب تک کہ کھانا بھی تیار ہو جائے،

کچھ ہی دیر میں شاہ فریش ہو کر باہر باہر کوریڈور میں آگیا تھا اور ٹھیک اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی شاہ کھولنے کے لئے بھی شاہ ہی روانہ ہوا شاہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے انمعول کھڑی تھی وہ جو عائش کے گھر سے جلدی جلدی آئی تھی اور اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے بابا نہ اس سے پہلے آجائیں تو اپنے سامنے کسی انجان مرد کو پاکر فورا واپس مڑی کے کہیں غلط جگہ تو نہیں آ پہنچی،

انمعول کی اس حرکت نے شاہ کے لبوں کو ایک خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا، اور یہ منظر نایاب بیگم سے نہ چھپ سکا،

نایاب بیگم اسے  مخاطب کرتے ہوئے بولی بیٹا انمول یہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے اندر آجائیں،

نایاب بیگم کی آواز پہ انمعول چونکی اور سامنے مڑ کہ دیکھا تو نایاب بیگم تھوڑا دور پیچھے کھڑی تھی وہ ستائشی نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھتے آگے کی طرف بڑھ گئی اور رخ اپنے کمرے کی جانب کیا،

شاہ وہی خاموش کھڑا رہا شاید وہ اتنے عرصے بعد اسے دیکھ کر اس میں کھو سا گیا تھا یا اسے اس کا یہ رویہ پسند کہ آیا تھا کچھ پل یونہی خاموشی کہ نظر ہوگئے نایاب بیگم نے خاموشی کو توڑتے ہوئے شاہ کو مخاطب کیا، 

بیٹا ہاتھ دھو لیں آپ دسترخواں لگ چکا ہے، شاہ خاموشی سے وہاں سے چل دیا،

اور نایاب بیگم انمعول کے کمرے کی جانب بڑھ گئی کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ بیڈ کی جانب سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی اور یقیننا وہ تھک چکی تھی کیونکہ صبح کالج سے واپسی پر وہ عائش کے گھر چلی گئی تھی وہاں سے رات گئے لوٹی تھی اسکے بیڈ پہ ایک شال پڑی تھی سیاح رنگ کی جو کہ وہ واپسی میں لپیٹ کر آئی تھی،

شاید اسے نایاب بیگم کے آنے کا احساس نہ ہوا تھا وہ اپنی ہی دنیا میں گم کہیں دور کھو گئی تھی، نایاب بیگم اسے بڑے غور سے دیکھے جا رہی تھی شاید محسوس کر رہی تھی کہ اس کی اکلوتی بیٹی کن خیالوں میں گم ہیں،

ایک ماں کی محبت بھی کتنی عظیم ہوتی ہے نا،

کہ چوٹ بچے کو لگتی ہے اور تکلیف ماں کو ہوتی ہے،

بچہ خوش ہوتا ہے تو اس کی خوشی سے ماں کو سکوں محسوس ہوتا ہے،

آہ 💔💦 یہ ماؤں جیسی ہستیاں بھی نہ،💧

نایاب بیگم کو اپنے سامنے پا کر انمعول اپنی سوچوں کو جھٹکتے ان سے مخاطب ہوئی،

ارے امی: السلام علیکم،

نایاب بیگم سلام کا جواب دیتے ہی ناراضگی کا اظہار کرنے لگی اور اسے بولا کہ باہر دسترخواں لگ چکا ہے آپ محترمہ تشریف فرمائیے،

انمول کو اپنی ماں کی انجان ناراضگی پر حیرت سے جھٹکا لگا کہ آخر وجہ کیا تھی ان کی ناراضگی کی وہ تو ابھی کچھ دیر قبل ہی گھر میں آئی ہے،

نایاب بیگم جانے کے لئے رخ موڑ چکی تھی تو پیچھے سے انمعول کی آواز برآمد ہوئی،

امی ہم کھانا عائش کے گھر سے کھا کر آئے ہیں اور اب ہم سونے جارہے ہیں گڈ نائٹ،،

نایاب بیگم نے پیچھے مڑ کہ انمعول پہ ایک غصیلی نگاہ ڈالی اور اسے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ کچھ دیر پہلے جب آپ گھر میں داخل ہوئی تھی تو گھر میں آئے ہوئے مہماں کو سلام تک نہ کیا اور بغیر کچھ بولے اپنے کمرے کی طرف چل دئیے آپ،؟

اوہ ہ ہ انمعول، نایاب بیگم کے غصے کی وجہ جانچتے ہوئے انکے گرد بازوں ہائل کرتے ہوئے بولی،

ارے میری سوئیٹی امی مجھے کیا پتا کہ غیروں کو بھی سلام کیا جاتا ہے اور آپ کو تو معلوم ہے کہ ہمیں اپنے ابو اور بھائیوں کے علاؤہ باقی مرد حضرات بلکل بھی پسند نہیں اور نہ ہی ہم ان کے سامنے کھڑے رہ سکتے ہیں،

نایاب بیگم کو انمعول کے ادا کئے گئے الفاظ سے زور سے جھٹکا لگا اور اس کی سوئی کچھ دیر کے لئے لفظ غیروں پہ اٹکی ہوئی تھی اور وہ حیرت بھری نگاہوں سے اپنی اس بھولی بیٹی کو دیکھے جا رہی تھی،

انمعول مذاق کے موڈ میں اپنی امی سے مذاق میں پتہ نہیں کیا کیا بولے جا رہی تھی،

مگر اس کی ماں کو اس کی کوئی بات سنائی نہیں دے رہی تھی بس اس کا سارا دھیان تو انمعول کے منہ سے ادا کئے گئے ایک ہی الفاظ پہ تھا،

انمعول کو جب اندازہ ہوا کہ اس کی ماں اس کی پڑر پڑر سے بے خبر ہیں تو وہ کہنے لگی کہ ہائے امی کونسے خیالوں میں گم ہو گئی آپ چلیں اب جلدی سے واپس آجائیں،

نایاب بیگم انمعول کو بغور دیکھے اسے شانوں سے تھام کر غصے سے بھڑک اٹھی،

انمعول کیا ہو گیا تمھیں،؟

کیا تم مذاق کر رہی ہو اپنی ماں کے ساتھ،؟

کیا تم باہر بیٹھے شخص کو نہیں جانتی؟

جو تم اسے غیر مرد کے لقب سے نواز چکی ہو ؟

کیا تم بھول گئی ہو اسے،؟

مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم اور اسے کیسے بھول سکتی ہو،؟

"ارے وہ شاہ ہے شاہ"

رشتے میں تمھارا خالا زاد تمھاری پسندیدہ خالا بانو کا بڑا بیٹا،

اور تم جو آج کہہ رہی ہو کی وہ غیر مرد تو یاد رکھنا کہ تمھارا بچپن اسی کہ ساتھ گزرا ہے اور بچپن میں تم اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی نہ کھیلتی تھی بلکہ سارا دن بس "شاہ جی" "شاہ جی" کہہ کر اس کے پیچھے بھاگتی رہتی تھی اور آج تم اسے پھچاننے سے انکاری کر رہی ہو ذرا اپنے دماغ سے کام لو،

یہ کہہ کر نایاب بیگم غصے سے دروازہ بند کر کے چلی گئی،

اور پیچھے کھڑے وجود کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اس کی آنکھوں میں نمی سی اتر آئی اور سر میں درد کی ایک ٹھیس سی اٹھ گئی، شاید زندگی میں پہلی بار آج اسے اس کی ماں نے اس طرح غصہ اتارا تھا، 

وہ بھی کسی غیر کے لئے اس کا دل چاہا کہ باہر بیٹھے شخص کا جا کر غلا دبا دے کہ جس کی وجہ سے زندگی میں پہلی بار اسے اتنی تکلیف محسوس ہو رہی تھی،

اس نے اپنے کمرے کی لائٹ آف کی اور بیڈ پر اوندھ منہ پڑی رہی اور کچھ دیر قبل ہونے والی باتیں اسکے گرد سوار ہو کر گھومنے لگی ،

کیا تم اسے نہیں جانتی،؟

ارے کیسے بھول سکتی ہو اسے،؟

وہ "شاہ ہے" وہ شاہ ہے،

جس کے ساتھ تمھارا بچپن گزرا،

جس کے ساتھ تم سارا دن گھامتی تھی،

جس کو تم "شاہ جی" "شاہ جی" کہتی تھی،،

وہ بہت کوشش کے باوجود بھی اسے یاد نہیں آرہا تھا بلکہ اسے اس کے بچپن کی ایک بھی بات یاد نہیں نہ تھی وہ انجان تھی اپنے بچپن کے گزرے ہوئے لمحوں سے اور اسے لگ رہا تھا کہ شاید کہ شاید اس کی ماں اس سے مذاق کر رہی ہے،

مذاق..؟؟؟

ھاھاھاھا ،

مذاق بھی بھلا کوئی ایسا کرتا ہے،،،،

ایک دن میں اور کچھ گھنٹوں میں تم نے میری ماں کو چھین لیا "شاہ" اب میں تم سے ایسا بدلا لوں گی کہ ساری زندگی یاد رکھو گے،

وہ بیڈ سے اٹھی اور اپنے آنسوں صاف کیں اور معصومانہ سا ہنس دی،

انمعول بہت مارڈرن فیملی سے تعلق رکھتی تھی بظاہر تو وہ دنیا دار تھی کہیں جاتی تو شال بھی بمشکل اوڑھتی، دوپٹہ بھی کبھی سر پے لیتی تو کبھی یونہی ہواؤں میں جھولتا رہتا،

مگر اسے لڑکوں سے چڑ سی ہوتی تھی کالج میں بھی اگر کسی لڑکے کی نظر اس پہ پڑ جاتی تو وہ غصے سے لال ہو جاتی اور اس کا دل کرتا کہ اس کی آنکھیں نوچ ڈالے،

تھیں تو دنیا دار صنف نازک سی لڑکی مگر لڑکوں سے بے انتہا نفرت کرتی تھی،

نایاب بیگم اس کے کمرے سے جیسے ہی باہر نکلی رخ دسترخواں کی جانب تھا،

مگر یہ کیا،؟

دسترخوان پہ جہاں تھوڑی دیر پہلے "امیر شاہ" بیٹھے تھے وہاں تو اب کوئی نہیں تھا، 

نایاب بیگم پریشان ہوئی اور جان گئی تھی کہ شاہ کو بہت دکھہ ہوا ہوگا،

وہیں اس کی نظر دسترخواں کے سامنے پڑی ایک چٹ پہ گئی جس کے اوپر وزن کے طور پہ ایک گلاس رکھا گیا تھا کہ کہیں ہوا میں اڑ نہ جائے نایاب بیگم نے جیسے ہی پرچی کھولی،

"السلام علیکم، خالا جانی آپ کا بنایا ہوا کھانا بہت ہی مزیدار تھا اور میں نے دل بھر کہ کھایا اور اب کسی ضروری کام سے باہر جا رہا ہوں رات کو دیر سے لوٹ آؤنگا باہر کی طرف والے دروازے سے آپ میرا انتظار ہرگز نہ کیجئے گا اور اب آپ آرام فرما لیں سارا دن میرے ساتھ بیٹھ بیٹھ کے تھک گئی ہونگی آپ کا "امیر شاہ"،،،،

نایاب بیگم نے دسترخواں پہ لگے کھانوں کے ڈھکن کھول کر دیکھے تو ان میں سے کسی میں سے ایک چمچ 🥄 جتنا نکلا ہوا تھا تو کسی میں سے دو چمچ،

نایاب بیگم بہت دکھی ہوئی، وہ شاہ کو سمجھ چکی تھی مگر وقت کے ہاتھوں مجبور تھی اور اس کی زندگی کے لئے خوشیوں کی دعائیں کرتی رہیں،

••~• ایک وقت تھا کہ 

ہم تھے، تم تھے، 

خوشیاں تھیں, غم تھے،

گلے تھے، شکوے تھے،

مگر،،،،،

صرف ہم اور تم تھے،،••~•

شاہ نے انمعول کی ساری باتیں سن لی تھی جب وہ نایاب بیگم کو اس کے کمرے سے بلانے جا رہا تھا تو اس کے کمرے سے انمول کی آوازیں آرہی تھی،

اور اسکا ادا کیا گیا لفظ "غیروں" پہ اسے بے انتہا تکلیف محسوس ہوئی کیا کچھ نہ ٹوٹا تھا آج اس کے اندر، 

بھروسہ،

پیار،

محبت،

چاہت،

عاشقی،

باقی بچا تھا تو کیا،؟ 

فقط امید کی اک کرن،

اسے یقین تھا کہ وہ اسے منا لے گا وہ تو خواب میں بھی نہیں گورا کرتا تھا کہ ایسے وہ اسے بھول جائے گی،

تکلیف میں کچھ کمی لانے کے لیئے وہ باہر نکل آیا تھا اور روڈ پہ گاڑی لاتے ہی کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی گاڑی چلاتے وقت اس نے کال ریسیو کی اور موبائل کان سے لگایا،

ایک انجانی سی آواز تھی اور آگے والے کی جانب سے ادا کئے گئے الفاظ تھے یا کوئی تیر،،

سیٹھ صاحب بارڈر پہ حملہ شروع ہوا ہے آپ کی سخت ضرورت ہے،

یہ کہہ کر مقابل کال کاٹ چکا تھا،

شاہ نے جھٹکے سے سوچا کہ اگلے کو اس کی اصلیت کیسے معلوم ہوئی وہ تو آج ہی انگلینڈ سے واپس آیا ہے،

ان سب سوچوں کو جھٹکتے ہوئے اس نے گاڑی ایک سنسان جگہ روک دی اور کالے رنگ کا ایک چھوٹا سا بیگ نکالا جس میں سے اپنی پسٹل نکالی اور گولیاں چیک کرنے لگا اور ایک چھوٹا سا لاکیٹ نکال کر پہننے لگا جس میں چھپی ہوئی چھوٹی سی کیمرہ لگی ہوئی تھی، شاہ بارڈر کی طرف روانہ ہو چکا تھا.»»»»»»

جاری ہے،،🍃

Post a Comment

1 Comments

  1. Masha Allah great .
    It causes again the more suspense
    Waiting for the next episode

    ReplyDelete