Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Momin By Ayesha Jabeen Episode 11 - Daily Novels

 عاٸشہ جبین 

مومن 

قسط 11

اور ہم نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ۔ انسان کیا ہے ? 

انسان جو اپنے اوپر نہ جانے کیوں گمان میں  ہے  کیا انسان پر برا وقت نہیں  آسکتا ۔ انسان اپنی " میں" میں مبتلا ہے  اور "میں"  کیا ہے ? انسان اتنا مجبور ہے  کہ پہلے اور آخری غسل کے لیے دوسروں کا محتاج ہے اگر یہ حقیقت جان لے کہ خود کو اس " میں " سے آزاد کرالیتاوہ جانتا ہے کہ اس کا آخری مسکن اس کی آخری آرام گاہ شہر خاموشاں میں اپنے پیاروں سے بہت دور ہیں ہیں اس میں رہنا ھوگا  اور جس دن صور پھونکا جاۓگا سب اپنے رب کے حضور  پیش کیے جاٸیں گے اس دن  کچھ لوگوں وہ لوگ جو متقی ہیں تقوی  اختیار کرتے ہیں اور بہت سے لوگ وہ ہوں گے جن کو پسینہ ان کی ایڑی تک آ رہا ہوگا بہت سخت دن ہوگا دعا ہے کہ اس دن نرمی   والا معاملہ کرتے ہوئے اللہ تعالی ہمیں اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے آمین آمین


#####


آفندی ہاؤس میں کراچی جانے کی تیاریاں عروج پر تھیں شاہنواز آفندی مومن کے لئے یاور عباس کے پاس پوری تیاری سے جانے والے تھے ان کا ارادہ بات پکی کرکے شادی کرنے کا تھا منگنی پر ان کا اعتبار نہیں تھا وہ چاہتے تھے کہ وہ جلد از جلد مومن کو ایک مضبوط اور پاکیزہ رشتے میں باندھ دیں منگنی ان کے نزدیک کمزور رشتہ تھا جس کی اسلام میں بھی کوئی گنجائش نہیں نکلتی

 ادھرمومن عجب مشکلوں  میں گرفتار تھا وہ اپنی حالت نہیں سمجھ سکتا تھا اس کو دن میں  قرار تھا  نہ رات میں چین کی نیند تھی اس کو آئے ہوئے پندرہ دن سے زیادہ دن  گزر گئے تھے ان دنوں میں بہت بدل چکا تھا نماز بھی وہ باقاعدگی سے ادا کرنے لگا تھا نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے جب ہاتھ اٹھاتا آنسو موتیوں کی مانند ہوتے ہیں جو قطرہ قطرہ ٹپکتے ہوۓ اس کی بڑھی ہو شیوہ کو بھگوتے تھے 

وہ جو میوزک دلدار تھا اس نے اپنے کمرے میں سے تمام میوزک سسٹیم اٹھا کر باہر پھینک دیا  تھا کمرے میں لگیہ ہوٸی  الٹی سیدھی تصویریں بھی بٹا دی تھی وہ سرسےپاٶں تک بدل  رہا  تھا شاید اس  دل میں چھپے سے جذبے  اس سے یہ کرا رہے تھے محبت بہت زور آوار  ہوتی ہے اس محبت  میں بہت اثر ہوتا ہے بہت  کچھ  ایسا ہوتا  ہے  جو ہم نہیس کرنا چاہتے  مگر یہ محبت  کرادیتی ہے  شاید محبت انسان کو  بدل دیتی ہے


#####


وہ دعا تھی دعا عباس ملک 

یاور عباسی ملک کی  اکلوتی بیٹی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن وہ جو سے بہت ہی نازوں میں لاڈوں میں پلی تھ  جس کی تربیت کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی 

وہ خود ہی اسلام کے سانچے میں ڈھلتی گئی اس نے خود پر وہ شرائط لگا لیں جو شاید ہمارے بزرگ ہمیں سمجھاتے ہوتے ہیں نماز کی پابندی بچپن سے تھی پردہ اس نوسال  کی عمرکرنا شروع کر دیا تھا وہ پورے خاندان میں منفرد اور پوراعتماد مانی جاتی تھی

   مگر گزشتہ دنوں سےاس  زندگی بدل دی تھی

وہ تلخ یادیں اس کا اعتماد چھن چکی تھی اس کو پچھلی یادیں  یاد کر کے روتی تھی الله سےمعافیاں مانگتی تھی  مگر وہ نادان تھی وہ نہیں سمجھتی تھی  کہ وہ  بے گناہ ہے 

بہت سے رازوں سے ہم انجانے ہوتے ہیں  اور جب ان سے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے تو  بہت کچھ بدل جاتا ہے یہی ہونے  والا تھا  دعا ملک کے ساتھ بھی  اس کی زندگی میں  بہت کچھ بدلنے والا تھا وہ کچھ ایسا ہونے والا تھا جس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا سوائے اس کے جس کے قبضہ قدرت میں سب کی جان ہے جو ہر چیز کا مالک ہے سب اس کے  محتاج ہیں

وہ اس دنیا  اور اس موجود ہر چیز کا مالک  ہے وہ رحیم ہے وہ  کریم ہے 

 شاعر کیا خوب کہتا ہے

 عشق پہ حق بس الف کا ہے الف صرف  حرف نہیں یہ ظرف ہے کمال کا 

ابتدا جہان کی سوال ہر جواب کا 

 ہر چیز کا مالک ہیں وہ جس نے دنیا بنائی ہو جو ہے وہ جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ ننانوے صفات کا مالک ہیں وہ ہر پل ہر جگہ موجود ہیں ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے


 چاہیےپہاڑ  بلندکی چوٹی ہوجا سمندر کی گہرائی ہو بہتے دریاؤں ہو یا جھرنےہو یا آبشاریں ہو جنگلات ہو برف  پوش وادیاں ہو یا آسمان کی وسعیتں انسانوں بستی ہو انسان کا دل ہو یار زیرزمین نیچ انسان  ھو سب کے حالات سے باخبر ہے

  درختوں کے پتے آسمان کے تارے کا چاند نظر آنا   قہر برساتا سورج اور برستی بارشیں چلتی ہوائیں  سب اس کے تابع ہیں اس کی ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے وہ ہمیشہ سے تھا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند

 وہ اکیلا تھا، اکیلا ہے، اکیلا ہی رہے گا، 

اس کی کوئی اولاد نہ ہے نہ  کوئی بیوی نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوٸی اولاد ہے 

 لا شریک ہے وہ   بے شک زبردست ہے وہ رحمان ہے  وہ رحیم ہے وہ  کریم ہے وہ خالق مالک ہے

ہر  حال میں سب کی دعاؤں کو سننے والا ہے  وہ بنانے والا ہے وہ چاہے تو ہماری جگہ دوسرے لوگ لے آۓ  اگر وہ چاہے توایک پل میں سب ختم کردےب

 ہمیں مٹا کر ہماری جگہ دوسرے لوگ لے آئے

 چاہے تو ہم سے ہمارا سب چھین لے چاہے تو ہمیں وہ عطا کر جو ہم نے سوچا بھی نہیں

ہر چیز اس کی محتاج ہے سدا سے ہے  اور ہمیشہ رہیں گی وہ دن جس دن صور پھونکا جائے گا وہ دن بہت زبردست ہے اس دن سب لوگوں کو اپنے کیے ہوئے اعمال جان لیں گے شاباش ہے ان لوگوں کے لئے جن کے نامہ اعمال کے پلڑے بھاری ہوں گے اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جن کے نامہ اعمال ان کی پشت سے دیا جائے گا درد ہوگا چہرے سیاہ ہو رہے ہوں گے اور کچھ چہرے  چمکتے چاند کی مانند ہوں گے آگ بھڑکا دی جائے گی اور ہر ایک کو اس کے ٹھکانے پہنچا دیا جائے گا کچھ بہشت میں جاٸیں گے جنت میں  سبک رو ہوائیں چلتی ہونگی  شراب کی نہریں ہونگی اور کچھ لوگ وہ ہو گے وہ جہنم میں جاٸیں  گے جہنم وہ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گاالله ہمارے حال پر رحم کرے اور ہمارا ٹھکانہ جنت میں ہو  ہمارا ہمارے والدین کا ہماری اولاد کا ٹھکانہ جنت میں بنائے آمین ثم آمین


####


"دعا کیا ہوا ہے جب سے آئی ہوں بہت پریشان ہو"? 

 فرحت ملک نے دعا کے سر میں تیل لگاتے ہوئے سوال کیا 

"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہم ٹھیک ہیں آپ کو ایسے ہی لگ رہا ہوگا " 

وہ  اپنی آنکھوں میں آئی نمی چھپاتے ہوئے بولی "تمہارے لئے ایک رشتہ آیا ہے میں اور تمہارے بابا اس کے لیے راضی ہیں وہ بلکل تمھارے قابل ہیں  اور ہم چاہتے ہیں کہ تمہارے فرض سے سبکدوش ہو جاٸیں وہ لوگ بہت اچھے ہیں تمہارے دادا  کے شاہنواز  آفندی  ان کا پوتا "

 وہ جانے کیا کچھ بول رہی تھی مگر وہ" قابل"

 اس لفظ پر غور کرنے لگی

" کیا ہم قابلِ عزت ہیں کیا ہم کسی عزت دار  گھرانے  کی بہو بن سکتے ہیں  اور اس کے لائق  ہیں ہم

نہیں ہیں  ہم کسی کی زندگی میں شامل کیسے  سکتے ہیں یا اللہ تو دعاؤں کا سننے والا ہے یا اللہ ہماری دعائیں سن اور ہماری مدد فرما" 

 وہ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرنے لگی

" کیا سوچ رہی ہودعا  پھر گیا کیا جواب دوں میں تمہارے بابا  کو کچھ تو  بتاؤ  "

فرحت ملک  نے اس سے سوال کیا

" ہم نہیں جانتے آپ بہتر جانتی ہیں  یا الله " 

دعا اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی 

"تو بس ٹھیک ہے میں تمہارے بابا  کو تمہاری طرف سے ہاں کہہ دیتی ہوں اور وہ بابا جان  کو ہاں بول دیں گے " 

 


وہ اٹھتے ہوۓ بولی اور پھر کچھ سوچتے ہوۓ بولی 


" ایسا کرتی ہوں میں  خود بابا جان اور پوری فیملی کو  فون کر دیتی ہیں تاکہ جلد از جلد  وہ آۓ  اور ہم مل کر کوئی کرلیں" 

وہ  خوشی میں بولتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور جاکر شاہنواز آفندی کوفون کرکے  دعا کی رضامندی کی خبر دی

جس کو   جان کر وہ بھی بہت خوش ہو ۓ اور  انہوں نے اپنےآنے کا بتایا  ادھر آفندی ہاٶس کے  سب لوگ خوشی خوشی اس نئے رشتے کی تیاری کرنے لگے تھے دعا  رضامندی دینے کے بعد ایک انجانے خوف میں مبتلا تھی وہ خوف دن بدن بڑھتا جا رہا تھا اس خوف کا کیا ہونے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا  ادھر  مومنکہ بدلنا ایک پہلیی بن چکا تھ سب کے لیے  لیکن  صرف وہ جانتا تھا کہ وہ کس   احساس ِشرمندگی میں مبتلا تھا 


######


"میں اندر آجاٶں بابا جان" 

 مومن دروازے میں کھڑا ہوکر اجازت طلب کر رہا تھا "آجاؤ میرے شیر " 

شاہ نواز نے مومن کواجازت دیتے ہوئے کہا ان کی نظریں بدستور مومن کے چہرے پہ تھی وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوں ان کے پاس آیا اور ان کے سامنے بیٹھ گیا

" آپ نے بلایا تھا بابا جان خیریت کوئی ضروری بات کرنی تھی"? 

 وہ ادب سے بولا

" ہاںبات تو بہت  ضروری ہے مگر پہلے تم یہ بتاوکیاتم پریشان  ہو " 


شاہنواز  آفند یہ نے سوال کیا

 توایک دم سر اٹھاکر ان کو دیکھنے لگا 

" نہیں  بابا جان ایسی کوٸی بات" 


وہ ہکلاتے ہوۓ بولا رہاتھا الاظ اس کا ساتھ دینےسےانکاری تھے


" نا  میرے شیر  جھوٹ  نہیں  میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے" 

وہ اس کی بات درمیان سے کاٹ کر  اس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے

" کیوں کیا ہوگیا ہے ایسا  بابا جان جو آپ کولگا میں جوٹ بول رہا ہوں  " 

اس کے دل کا چور اس کو بولنے سے روک رہا تھا مگر دل بغاوت پر تھا 


" ایسا کیا نہیں ہے جو شک میں مبتلا نہ کرے برخودار  جب سے آسٹریلیا سے آئے ہو بہت بدل گئے ہو ایسا کیا ہوا ہے جو تمہارا یہ حال ہے کس کا روگ ہے تمہیں جو کہیں چین نہیں لینے دے رہا ایسا کون سا درد ہے جو تمہیں اندر ہی اندر کھا رہا ہے کون سی غلطی کی ہے" 

شاہنواز آفندی بولے رہےتھے اور مومن کی نظروں کےسامنا  وہ روتا ہوا چہرہ گھوم رہا تھا وہ گرے آنکھیں  جو  بری طرح سرخ تھیں یہی آنکھیں تو اس کو کہی چین  لینے  نہیں دے رہی تھیں

" کوئی بڑا گناہ تو نہیں کر دیا " 

وہ مومن کو با غور دیکھتے ہوئے بولے  اور الفاظ  جسے مومن کو جھلسا گے  ایسےجیسے  کسی نے اس پر تیزاب ڈالا ہو

" میری جان آپ پر قربان بابا جان میں نے ایسا کچھ نیں کیامیں  زنا  جیسا گناہ کرنے کےبارےمیں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا " 

  وہ گہری سانس لے کر بولا تھا

اس کے چہرے پر کرب تھا اذیت تھی 

 " پھر کیا کردیا ہے ایسا جو یوں  پریشان ہو " 

وہ  ان کے چہرے کو دیکھتا رہ گیا جو شاید آج اسکے اندر پوری طرح جھانکےکے موڈ میں تھے آج ان کاارداہ شایدمومن سے سب سچ اگلوانے کا تھا  

" بابا جان میں قسم کھاتا ہوں کوئی گناہ نہیں کیا میں نے ہاں غلطی ضرور ہوگئی ہے مجھ سے" 

وہ کسی مجرم کی طرح بولا تھا 

" میں نہیں غلط ہوں  اور کچھ غلط نہیں کرنا چاہاتھا اورنا کچھ غلط کیا ہے جو بھی ہوا  مجھے کہیں چین نہیں لینے دے رہا میں ترپ  ہو رہا ہوں " 

مومن نے بولنا شروع کیا تو جیسےاس کو حوصلہملا تھا 

" ایسے  لگتاہےجیسے میں کسی بندکمرے میں ہوں وہاں کوئی بندہ  نہیں ہے جو میری مدد کرے  کوئی راستہ نہیں ہے  جہاں سے میں نکل سکوں اور نہ  کوئی روشندان نہیں ہے جہاں سے مجھے سانس  آۓ " 

و اپنی کیفیت  سمجھاتے ہوۓبولا 

" میں اپنی کیفیت آپ کو نہیں بتا سکتا آپ نہیں سمجھتے کہ میں کن اندھیری گلیوں میں انجانے راستے میں بھٹک رہا ہوں آپ بس  میرے لیے دعا کریں کہ وہ رب مجھے معاف کر دے اور میرے حال پر رحم فرما تے ہوئے مجھے اس سے ملادے " 

" وہ  کون ہے جس کی وجہ سے  تم نے خود کو اتنا بدلا ہے "  

شاہنواز آفندٕی نے دوٹوک لہجے میں سوال کیا 

"میں اپنے گناہ کی غلطی کی معافی مانگ لوں  گا چاہے اس کے پاٶں پکڑنےپڑے "

وہ خلا میں دیکھتےہوۓ  بولا تھا

" کافی کچھ وضاحت دے چکے ہو نام بھی بتاو گےاب اس کا"   

اس کے چہرےرقم تھا کہ کو  کسی کو بری طرح چاہنےلگا  تھا  وہ گہری گہری سانس لے کر جیسے خود کو بولنے کے لئے تیار کر رہا تھا بالآخر اس کو ہمت آ گئی اور وہ بولنے لگا

" وہ بات کی ہیں کہ بابا جان  وہ  بہت پاک لڑکی ہے  بہت ہی  نیک  باپردہ اور میں ناپاک ہوں  اس کے لائق نہیں وہ چاند کی طرح شفاف ہے اور چاند کو  ہم بہت دور سےدیکھتے ہیں  چاند کی تمنا سب کرتےہیں مگر باباجان چاند بھی ملا ہے کسی کو  جو مجھے مل جاتا میں پاگل ہوں جو چاند کی تمنا کرنے لگا رہےتھا " 

 وہ  کھڑا ہو اور شاہنواز آفندی کے پاٶں میں جاکر بٹھتے  ہوۓ بولا

 "میرے لیے  دعا کریں بابا جان وہ مل جاۓ مجھے مگر میں نہیں سمجھ پا رہا کہ مجھے کیوں نہیں مل رہی وہ کیا میں  اتنا با نصیب نہیں ہوں کہ  وہ مل جاۓ مجھے " 

 سادگی سے بولتا وہ شاید ضبط کی  انتہا پہ تھا اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں وہ  اپنا چہرہ دائیں بائیں گھما کر جیسے خود کو رونےسے روکا رہا  تھا "وہ کون ہے اور کہاں ہے اور کیوں نہیں مل سکتی تمہیں" 

 شاہنواز آفندی  نے سوال کیا تو وہ ان پیروں پر اپنے  ہاتھ  رکھ کر بولا 

" آپ جو الله کا واسطہ اس کو میری زندگی میں شامل کر دیں وہ میری زندگی ہے جینے کا مقصد ہے میری ہر  خواہش پوری کی ہے آپ نے ویسے میری یہ خواہش پوری کردیں  یہ میری آخری خواہش  ہے بس یہ پوری کردیں  یہ تمنا پوری کردیں اس کے بعد آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا" 

 مومن کے پاؤں پکڑ کر التجا کرتے ہوئے بولا

 " یہ  سب چھوڑو  بس  یہ بتاؤ  وہ کون ہے" 

 شاہنواز آفندی نے  اب کی بار سختی سے سوال کیاتھا 


 اور جو نام  مومن نے لیا وہ سن کر شاہنواز آفندی  ایک  پل کے لیےخاموش ھوگے 

" تیاری  کرو مومن  میں تمھاری  شادی اپنےپرانےدوست کی پوتی سےکررہاہوں ہم کل ہی وہاں جاٸیں گےاور تمھارا نکاح کرکے دلہن  لاۓ گے یہ میرا آخری فیصلہ ہے  بس اب اور کوٸی بات نہیں ھوگی  "

انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا جس کو سن  کر مومن کو لگااس کےجسم سے روح آزاد ہوگی ہے وہ چاہنے کے باوجود بھی سانس نہیں لے پا رہاتھا  


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments