Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Momin By Ayesha Jabeen Episode 12 - Daily Novels

عائشہ جبین 

مومن 

قسط 12

وہ گھر میں داخل ہوا تھا گھر میں غیر معمولی خاموشی تھی اس نے ملازم سے پوچھا 

"سب لوگ کہاں گئے ہیں "؟ 

"سر آپ کو نہیں پتا" 

 ملازم نے حیرت سے کہا 

"مجھے پتا ہوتا تو تم سے پوچھتا یا میں تمہیں پولیس آفیسر لگتاہوں جو لوگوں کی تفتیش کرتا پھرتا ہے " 

وہ جلے بھنے انداز میں بولا

" سر جی سب لوگ تو کراچی گئے ہیں مومن بابا کے رشتے کے لئے اور ہوسکتا ہے دلہن بھی ساتھ میں لائیں" 

 ملازم کے بتانے پر وہ سوچ میں ڈوب گیا تھا ۔

وہ میں  سوچ میں پڑ گیا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اپنے کمرے میں جاکر وہ بیڈپر آڑا ترچھا لیٹ گیا تھا اور سوچنے لگا کہ جب سے مومن واپس آیا تھا وہ بہت عجیب سا ہو گیا تھا اس کے انداز اطوار تبدیل ہو چکے تھے جو سب کو چونکا دینے کے لئے کافی تھے کسی اور نے تو شاید اس کے رویے پر غور نہیں کیا تھا مگر وہ اس کو کافی گہرائی سے دیکھ رہا تھا کہاں  وہ اپنی مرضی کا مالک تھا کہ ایک شرٹ بھی اپنی پسند کی لینے کا عادی تھا اور اب اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ اس نے بابا جان کے سپرد کر دیا تھا۔

" کچھ تو ہوا ہے پتاکرنا پڑے گا اس مومن کے ساتھ ایسا بھی کیا ہو گیا جو یہ اتنا فرماں بردار  بچہ بن گیا اور خاموشی سے سر جھکا کر کراچی چلا گیا اپنی مرضی چھوڑ کر ابا جان کی مرضی سے شادی کر رہا ہے" 

 وہ سوچنے لگا اور خود کلامی کرتے ہوئے اپنے فون سے نمبر کھنگالنے لگا مطلوبہ نمبر ملنے پر اس نمبر پر کال کرنے لگا اس وقت اس کے چہرے پر ایک پراسرار سی مسکراہٹ تھی

###


وہ کب سے چھت کو دیکھنے میں مصروف تھی اس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے ڈرپ اس کے دائیں ہاتھ میں لگی ہوئی تھی۔

" کیسی ہو رانیہ اب کیسی طبیعت ہے تمہاری " ؟

انجلی جو اس کے پاس کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اس نے کب سے اس کو اسی حالت میں دیکھا اور بالآخر اس سے سوال کیا تھا۔

" کیسی ہوسکتی میں کیا تم نہیں دیکھ سکتی میں نے جو جال دعا کے لیے بنا تھا وہ میرے ہی لیے تھا شاید

 میں اس میں خود ہی اوندھے منہ جاگری صیح کہتے ہیں جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے اس میں خود گرتا ہے" 

 رانیہ افسردگی سے بولی

" ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہماری ایک چال تھی جو ناکام ہوگئی تو کیا ہوا ہم پھر سے کوشش کریں گے اس بار اس  کو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑیں گے اس بار ہم لوگ ایسا بہترین پلان بنائیں گے" 

  انجلی شاطرانہ انداز میں بولی "ایسا کچھ بھی کریں گےاب ہم اورکیا مطلب ہے تمہارا ایسا کچھ کیا نہیں ہوا کیا مطلب ہے تمہارا اس سے برا کیا اور ہونا ہے جو میرے ساتھ ہوا ہے کیا تم نہیں جانتی کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے کیا تم لڑکی نہیں ہوں یا تم جاننا نہیں چاہتی کہ میں نے کیا کھویا ہے کیا تم لڑکی نہیں ہو 

 میری عزت، میرا مان، میرا غرور، میری نسوانیت' 

سب ختم ہوگیا ہے " 

 وہ چلا کر اس کی بات کاٹ کر چلاتے ہوئے بولی

" رانیہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا یہ تو معمولی سی بات ہے بس تم کچھ زیادہ ہی ریکٹ کر رہی ہوں یہ عمل زبردستی کا تھا تمہاری رضا شامل نہیں تھی اور نہ ہی تمہاری پسند کا انسان ا تھا

اگر تمہاری پسند کا  انسان ہوتا کچھ اور بات ہوتی " 

انجلی نے سفاکیت سے کہا "بکواس بند کرو اپنی اور جاؤ یہاں سے دفع ہو جاؤ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تم ایک گری ہوئی نفس کی غلامی لڑکی ہوں میں نہیں جانتی کہ گناہ کیا ہے ثواب کیا ہوتا ہے جس میں یہ جانتی ہوں کہ میں نے جو اس کے لیے گیا تھا وہ میں خود کاٹ رہی ہوں" رانیہ  نے انجلی کی بات کا جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں 

"اچھاجو دعا کے ساتھ کررہی تھی وہ تو ثواب کاکام تھاوہ تو جیسے بڑانیک کام تھا" 

  انجلی طنزیہ اندازمیں بولی 

"اس کی ہی سزا ملی ہے مجھے وہ بہت پاک لڑکی تھی جس کی الله نے حفاظت کی اور مجھے میرے گناہوں کی شامت نے آگھیرااور میں عبرت کا نشان بن گی ہوں" 

 وہ روتے ہوئے بولی 

"اب تمہیں احساس ہورہاہے "؟

انجلی نے ایک اور تیر چلایا تھا 

"جاوُیہاں سے انجلی اب مجھے سے دوبارہ ملنے کی کوشش نا کرنا ورنہ میں تم سے اپنا یہ دوستی کا رشتہ بھی ختم کردوں گی اب سے تمہارا مجھے سے کوئی رابطہ نا رکھنا بہتر ہے ہم دونوں کے لیے "

رانیہ نے بول کر اپنا دیوار کی طرف پھیر لیا تھا ۔

اس کی بات سن کر انجلی نے سر جھٹکا وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اس کی ہیل کی ٹک ٹک نے عیجب شور مچایا تھا۔

وہ لفٹ کی طرف بڑھ رہی تھی جب اس کافون بجا پرس سےفون نکال کر اس نے دیکھا تو حیرت میں پڑگئی تھی ۔اس کے فون پر جس نمبر سے کال آرہی تھی وہ اس کو چونکا دینے کے کافی تھا۔ 

اس وقت اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔

کال آنسر کرکے کان سے لگا کر وہ بڑے دلربا انداز میں بات کرنے لگی تھی۔

کچھ دیر بعد مقابل نے اس کو کچھ ایسا بتایا تھا جو سن کر اس سے اپنے پاوُں پر کھڑا ہونا محال لگنے لگا اس کے چہرےکا رنگ خطرناک حد تک زرد ہوگیا تھا۔

"####

ملک ہاوس میں سب بہت خوش تھے۔

سوائے دعااور مومن کےان دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے کو دیکھا نہیں تھا۔

شاہنواز آفندی اور یاورعباس ملک کےدرمیان ساری بات طئے ہوچکی تھی یہ سب تو بس ایک رسم تھی جو وہ نبھا رہے تھے۔ورنہ جتنا یاور عباس شاہنواز آفندی کی عزت کرتےتھےان کا کہنا ہے کافی تھا۔

" بھابھی ایسا کریں ہماری بیٹی کو بلائیں ہم سب بھی اس سے مل لیں " 

شہنازآفندی نے فرحت ملک کوکہا جو سب کو چائےسرو کررہی تھیں۔

" نہیں تم لوگ اندر جاکر مل لوبچی سے یہ کچھ مناسب نہیں لگتا وہ ویسے بھی پردے کی پابند ہے نکاح سے پہلے اس کا مومن کے سامنے آنا مناسب نہیں " 

شاہنواز آفندی نےفرحت ملک کی پریشانی کو سمجھتے ہو کہا تھا۔

" مگر باباجان شام کو ان دونوں کا نکاح ہے اب سامنے آنے میں کیا قباحت ہے" ۔

فریحہ  آفندی نے سوال کیا تھا

" بیٹا فریحہ!ابھی کچھ دیر پہلے میں نے بتایا ہے کہ ہماری ہونے والی بہوپردے کی پابند ہے اورمیں نہیں چاہتا اس کو کبھی خود کو ہمارے لیے بدلنا پڑے وہ جو چاہتی ہے ویسا کرے اور اسی طرح رہے جیسے یہاں ملک ہاوُس میں رہتی ہے آفندی ہاوُس میں بھی اس کو کچھ الگ نا لگے کیونکہ میں بہو نہیں بیٹی بنا کرلے جارہا ہوں "

شاہنواز آفندی نے کہا تو مومن ان کی بات پر ان کو غور سے دیکھنے لگا وہ ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی باتوں پر غور کررہا تھا۔پہلےوہ سب کی باتیں غائب دماغی سے سن رہا تھا مگر جب شاہنواز آفندی نے اس کے باپردہ ہونے کا کہا تھا یک دم سےمومن کی آنکھوں کے سامنے دعا کا چہرہ گھوم گیا۔ یہ گرے آنکھیں ہی تو تھیں جو اس کا چین لوٹ چکی تھیں۔اس نے خود کو کتنا سنبھالنے کی کوشش کی تھی خود کو بدلا تھا مگر وہ گرے آنکھیں اس کے حواسوں پرسوار تھیں ۔ نمی لیے گرے آنکھیں،،  روتی گرے آنکھیں 

فریاد کرتی گرے آنکھیں ،سوال کرتی گرے آنکھیں ،

وہ ان گرے آنکھوں میں آنسو کی وجہ تھا وہ چاہتا تھاکسی طرح ان گرے آنکھوں کی نمی صاف کردے اس کے آنسو اپنی انگلیوں کےپورروں پر چن لیے مگر کیسے وہ ان گرےآنکھوں کو مسکراتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔

" مومن کیا سوچ رہے ہو بیٹا یہ چائے لو"?

فرحت ملک اس کو آواز تو دی تو وہ چونک کر ان کو دیکھنے لگا جو چہرے پر نرم سی مسکراہٹ لیے اس کو آوازیں دے رہی تھیں وہ نجانے کہاں کھوگیا تھا ۔

" جی آنٹی کچھ نہیں سوچ رہا بس ویسے ہی"

اس نے بولا اور اپنےچہرے پر ہاتھ پھیر کر جیسے خود کو ریلکس کرنا چاہا تھا اس عمل سے شاید وہ اپنی پریشانی کو ہٹانے کی کوشش کررہا تھااس کی یہ حرکت دیکھ کر شاہنواز آفندی محض ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئے تھے ۔

Post a Comment

0 Comments