Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Momin Episode 10 By Ayesha Jabeen - Daily Novels

 مومن 

قسط 10 

عاٸشہ جبین

 

   زندگی میں بہت سے واقعات ایسےھوجاتےہیں ۔جن کو ہم جتنا بھلانا چاہتا ہیں وہ اتنی قوت سے ہمارے سامنےآجاتے ہیں بہت بے بس ہوتا ہے اس وقت انسان 

انسان ہے کیا ? اس کی کیا حقیقت ہے وہ انسان جس  کو اس دنیا اور زمین وآسمان کے مالک نے مادرِشکم میں تین اندھیروں میں پروان چڑھایا وہ انسان جو پہلےایک گندگی تھا اپنے رب کے حکم سے وہ ایک گوشت کے لوتھڑے میں بدل گیا پھر اس کریم اللہ نے اس میں ہڈیاں پیوست کی اور اس کو روح بخشی اور اس مصورِاعٰلی نے وہی مادرِشکم کے تین اندھیروں میں بہترین شکل سے نوازا ۔اور پھر مدت پوری ہونے پر اس بچوں کو اس دنیامیں لایا اور ماں کو  ایک عظیم رتبے پر فاٸز کردیاجنت اسکے قدموں تلے رکھ دی تم پر اۓ جن وانس کی جماعت اس نے اپنی نعمتوں کی حد تمام کردی اب بھلا بتاو اب تم کیا کروگے

{پس تم اپنے رب کی  کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے }(القران )

######


آفندی ہاٶس میں ایک جشن کا سماں تھا وجہ تھی ۔

مومن آفندی کا اچانک لوٹ کر آجانا جہاں سب اس کے ایسے آنے پر حیران اور خوش تھے ۔ وہی اس کے انداز اس کے رویے سے کچھ پریشان بھی تھے ۔

اس کے والد شہریار آفندی نے اس سے وجہ جاننے کی کوشش کی مگر وہ ٹال گیا ۔جبکہ یہی کوشش جب بسمہ آفندی نے کی تو وہ گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا ۔جس کو دیکھ بسمہ آفندی مزید پریشان ہوگی ان کا لاڈلا تو سب کو ہنسانے میں ماہر تھا باتوں کو چٹکیوں میں اڑانے والا اس طرح رورہا تھا ۔

" مومن کیا ہوا ہے کیوں ایسے رو رہے ہوں کچھ بتاومیرا بچہ " 

بسمہ آفندی اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی 

" ماما ! میں بہت برا انسان ہوں کبھی کوٸی اچھا کام نہیں کیا سب کا دل دکھاتا ہوں اور اس بار تو حد کردی میں نے اس کا دل دکھایا اس کو چھوٹ پہنچاٸی  جس  میں محبت کا دعوا کرتا ہوں  مجھے اللہ کبھی معاف نہیں کریگے گا "

مومن سر اٹھا کر بولا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جو اس کا پورا چہرہ بھگورہے تھے۔ آنکھیں اس کی سرخ ہورہی تھیں۔

"ایسے نہیں بولتے مومن کیوں معاف نہیں کریگا اللہ وہ تو اپنے بندوں سے ستر ماٶں سے زیادہ  پیار کرتا ہے وہ رحیم ہے وہ کریم ہے رحمٰن ہے وہ تو بخشش کا بہانہ  تلاش کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس سے سچے دل سے توبہ کرے اور وہ اپنے بندے کو معاف کردے "

بسمہ آفندی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوۓ بولی 

" اور اچھا کام کیا ہے? تمھارے  نزدیک  تم سب کا خیال رکھتے ہو  سب کی عزت کرتے ہو  اور " 

" ماما میں نماز نہیں پڑھتا جو ہمارا دین کا ستون ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک  ہے "

مومن نے بسمہ آفندی کی بات کاٹ کرکہا تو وہ سر جھکا کر اس کی بات پر اثبات میں سر ہلانے لگی 

" ماما ! آپ نے مجھ پر کبھی سختی نہیں کی  کبھی مجھے روز دے کر نہیں  بولا  کہ میں نماز ادا  کروں جب کہ آپ جانتی ہیں نماز  کافر اور مسلمان کے درمیان فرق ظاہر کرتی ہے  میرے کسی کے ساتھ اچھے ہونےاچھے طریقے سے بات کرنا کسی  کی مالی مدد  کرنا  یہ سب مجھے نماز کے سوال سے نہیں بچا سکتا " 

وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا کچھ پل خاموش رہا اور پھر سے بولا 

"  ماما ! وہ بلکل صیح کہتی ہے میں صرف نام کا مومن ہوں " 

" کون ہے وہ اور ایسا کیوں کہا اس نے اور کس کا دل دکھایا ہےتم نے  مومن جو تڑپ رہےہو " 

بسمہ آفندی نے اس کی بکھرتی ہوا حالت کے پشِ نظر سوال پر سوال کیے تھے۔ 

" ماما وہی جس کو میں بےحد چاہتا ہوں اور مجھےپتا ہے میرا اللہ اب مجھے اس سے کبھی نہیں ملاۓ گا میں نے اپنی نادانیوں کی وجہ سے اس کوہمیشہ کے لیےکھو دیا ہے اس کا ایسےدل دکھایا ہے  صرف اپنی نادانی کی وجہ سے کوٸی اپنے دشمن کا  دل بھی نہیں دکھاتا  اب یہ میری سزا ہے میں ایسے ہمشیہ اس کے لیے روتاتڑپتا رہوں گا  شاید یہی  میرے گناہوں کا کفارہ ہےمیں  صرف نام کو مومن ہوں " 

وہ بول  کر زاروقطار  رونے لگا  بسمہ آفندی نے اس کو چپ کرانے کی کوشش کی تو اس نے ان کو کمرے سے جانےکا بول دیا اور کمرے کا دروازہ بند کر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا روہا تھا اپنے رب سے معافی مانگ رہا تھا۔اسکےرونے میں بہت درد تھا ۔ 


####


وہ کب سے سنگی  بینچ پر بیٹھی ہوٸی تھی  اس وقت وہ غم وغصے  کا شکار تھی 

أَسْتَغْفِرُ اللّٰه

 پڑھتے ہوۓ خود سنبھالنے کی پوری  کوشش  کررہی تھی جتنا وہ اس سوچ  سےپیچھا چھڑاتی  سوچ چھم سے اس کے سامنے آجاتی 

" لعنت ہے  ہمیں  وہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا بہت  بڑی غلطی کردی ہم نے وہاں جاکر وہ اس  قابل ہی نہیں کہ اس انسان سے بات کی جاۓ" 

وہ دل ہی دل میں  بات کرتے ہوۓ بولی

" وہ انسان اس قابل ہی نہیں کہ اس کا اعتبار  کیا جاۓ  میری غلطی تھی جو میں اس سےبات کرنے گی جب مجھے اس شخص کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاٸیے" 

وہ صوفیہ کو دیکھ کر بولی اس کا غصہ عروج پر تھا گرےآنکھیں برسنے کو بےتاب تھیں

" تم ایسے کیسے کیسی کے بارے میں ایسے بول سکتی ہوں ہوسکتا ہے  کوٸی پریشانی ہوسکتی ہے جو وہ یوں چلا گیا " 

صوفیہ اس کو سمجھاتےہوۓ بولی 

" تم نہیں  جانتی وہ یہاں سےڈر کر بھاگا ہے اس کا گناہ اس کو کہی چین نہیں لینے دے گا  ہماری دعا ہے وہ یہونہی بے مراد رہے گا بے سکونی بے چینی اس کا مقدر بنے گی  ان شاء اللہ" 

دعا  ہاتھ اٹھا کر بولی اس کو اس طرح کرتے ہوۓ  اچھنبے سے  دیکھ کر بولی 

" جہاں تک میں سمجھتی ہوں تمھارے دین میں تو ہے کسی کو بددعا نہ دو اور تم یہ سب کیا کررہی ہوں جواب ہے تمھارے پاس" 

" کیا کرے ہم اور تم بتاو ہم کہاں جاٸیں کس سےبولے" 

دعا دبادبا چلا کر بولی 

" اپنے رب سےسب اس پر چھوڑ دو وہ سب ٹھیک کردے گا" 

صوفیہ نے کہا تو دعا اس کی بات سن کرپل بھرمیں جیسے ہلکی پھلکی ہوٸی تھی اوراثبات میں سرہلا کر اپنا معاملہ اس شانِ عظیم کے سپرد  کردیا  جو ہر چیز کا مالک ہے سب کا بنانے والا ہے ہر چیز کا مالک خالق ہے جو  جب چاہے سب کو مٹادے اور ان لوگوں کی جگہ دوسرے لوگ لے آۓ

( وہی ہے جو زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے وہی ہے جو مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ہر چیز کی بھلاٸی اس کے ہاتھ میں ہے   القرآن ) وہ ہر چیز پر قادر ہے وہ اللہ ہے  وہ سب کرسکتا ہے وہ چاہے تو دن کورات اور رات کو دن بنادے تقدیر بنانا اس کے ہاتھ ہے اس مالک سے ہر پل دعا مانگنی چاہیے اس کا فضل اس کا کرم اور رح مانگو  انصاف نہیں مانگنا  چاہیے  کیوں اس سے زیادہ انصاف کرنےوالا کوٸی نہیں  


######


یاور ملک نے فون کرکے دعا کو پاکستان آنے کا بولا تھا ۔وہ بھی شاید یہاں سے دل برداشتہ ھوگی تھی انکے فون کرتے ہی جانے کے لیے تیار ہوگی تھی جبکہ اس کو صوفیہ اور  ٹینا نے جانے سے کتنا روکا تھا اس کےپیپر قریب ہیں یہ تک کہا  مگر اس پر فی الوقت وہاں سے جانے کی دھن سوار تھی وہ کسی کی کوٸی بات سننے کوتیار نہیں تھی ۔ وہ واپس پاکستان آچکی تھی  جہاں اس کی زندگی کا اہم فیصلہ ہونے جارہا تھا جس سے وہ انجان تھی انسان بعض  دفعہ جن حالات سے بھاگتا ہے وہ اس کے سامنے آجاتے ہیں تب وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا 

بلکل ایسے ہی کچھ ہونا تھا جو دعا کے گمان میں بھی نہ تھا ادھر مومن کو ابھی  تک اپنے بابا جان کے فیصلے کا نہیں پتا تھا  انتظار تھا تو اس وقت کا جب بہت کچھ بدلنا تھا نٸے رشتے بننے تھے  جو شاید پرانے رشتوں کو خراب بھی کرسکتے تھے کون جانے کیا ہونا تھا 


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments