Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari By Amir Sohail Episode 11 - Daily Novels

ناول۔۔۔آفت کی ماری

ناول نگار۔۔۔عامر سہیل

قسط۔۔11

نمرہ آج پھر بہت ہی پریشان تھی کیونکہ اختر نے پھر دھمکی دی تھی کہ اب اس نے اختر پر شک کیا تو اسے طلاق دے دے گا، وہ بیچاری دوہری مصیبت میں مبتلا تھی، ایک طرف تو اختر شبنی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا، دوسری طرف وہ شگفتہ پر اپنی جھوٹ موٹ کی محبت تھوپنے کی سعی میں تھا اور ان سب چکروں میں وہ پہلے نمرہ نام کا کانٹا اپنی زندگی سے نکال دینا چاہتا تھا، اس نے دفتر جاتے ہوئے اور پھر واپس آ کر نمرہ کو بہت زیادہ زچ کرنا شروع کر دیا اور اسے اس بات پر مجبور کرنے لگا کہ وہ خود کسی طرح اس سے طلاق مانگ لے، لیکن نمرہ تھی کہ جانے کس مٹی سے اس کا خمیر بنایا گیا تھا، وہ بھی ڈٹ گئی اور اختر کی کوئی چال نہ چلنے دے رہی تھی، انسان بھی بڑی طاقت ور چیز ثابت ہوتا ہے کبھی کبھی، یہ جب رشتے نبھانے پہ آ جائے تو بڑی سے بڑی مصیبت کو بھی ہنس کر سہتا چلا جاتا ہے اور اف تک نہیں کرتا، نمرہ کو بھی کچھ یہی عارضہ لاحق تھا جی ہاں رشتوں کو نبھانے کا عارضہ، اور یہ چیز اسے اپنے والدین سے ودیعت ہوئی تھی کہ جیسی مشکلات مرضی آ جائیں پر ہمت کا دامن کبھی نہ چھوڑو، ہمت اور امید کی چٹان بن جاؤ، نمرہ اختر کا کوئی بھی حربہ خود پر کارگر ثابت نہ ہونے دے رہی تھی، کیونکہ نمرہ نے اب من میں ٹھان لی تھی کہ اختر کو وہ بدل کر رہے گی اور اختر کو پہلے جیسا اختر بنا کر ہی دم لے گی،اور اس مقصد کیلئے وہ ہر حد پار کرنے کو تیار تھی، اسے اس بات سے کوئی سروکار نہ رہا کہ اختر اسے کتنا تنگ کر رہا ہے اور کتنا ستائے جا رہا ہے ،وہ تو بس یہ چاہتی تھی کہ اس کے امی ابو کا نام اور اس کی دادی کا نام کسی بھی طریق سے خراب نہ ہونے پائے، پھر چاہے اس کیلئے اس کی جان ہی کیوں نا چلی جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*********

اب جو کچھ اختر نے اس کے ساتھ کیا وہ اس سے علیحدگی کا سوچنے لگی، واپسی پہ اس کی نظر اچانک اختر پہ پڑی اس کے ساتھ وہ لڑکی بھی براجمان تھی جس نے ہسپتال میں اسے اپنا نام رابعہ بتایا تھا، اس سے رہا نہ گیا، وہ وقاص کے لاکھ منع کرنے کے باوجود گاڑی سے اتری اور اختر کو جا کر ایک تھپڑ رسید کر دیا، اختر بھی طیش میں آ گیا اور ایک تھپڑ نمرہ کو دے مارا، یوں نمرہ نے اسی وقت اختر سے کہا کہ اسے طلاق دے دے اختر پہلے تو زور زور سے قہقے مار کے ہنسنے لگا اور پھر گویا ہوا کہ پاگل لڑکی تم سے ملنا کون چاہتا ہے، تمہیں اپنے گھر میں رکھنا کون چاہتا ہے، یہ میری نئی بیوی ہے"شبنی"اس سے میرا بچہ بھی ہونے والا ہے، میں نے اس سے کب کی شادی کر لی، تم کو میں نے مروا ہی دیا تھا، مگر تم کہ اتنی منحوس اور عیار ہو کہ بچ گئی اور اب نہ جانے کس کے ساتھ اپنا منہ کالا کرتی پھر رہی ہو، اب تو کوئی جواز ہی نہیں رہا تمہیں اپنے ساتھ رکھنے کا، اس لیے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، نمرہ کے جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی وہ نیم بیہوشی کی حالت میں وقاص کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئی، آج اس کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے، رشتوں کو نبھانے کا بھرم ٹوٹ چکا تھا، اس کا سب کچھ ایک ہی لمحے میں چھن چکا تھا، اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے وقاص سے کہا کہ اسے دارلامان چھوڑ دو، اسی لمحے اس پر بیہوشی کا دورہ پڑا، جب ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک اکیلے کمرے میں پڑی ہے اور کمرے کا دروازہ بھی بند ہے

.......................................**********

ہمسایہ بھی ہمہ وقت مہرو کے بارے میں سوچتا رہتا، کیونکہ وہ اس کیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ثابت ہوئی تھی، اس کا جب بھی جی کرتا وہ مہرو کے پاس آتا، اس سے مل لیتا اور اس سے کثیر رقم بٹور کر چلا جاتا، نہیں خبر ایک دن ڈینگی کو کس طرح مہرو اور ہمسائے کے چکر کا علم ہو گیا، اس نے مہرو سے کہا کہ وہ اگر ایک لاکھ یک مشت اسے دے دے تو وہ ہمسائے اور اس کے چکر کے بارے میں کسی کو نہ بتائے گا، اگر مہرو ایسا نہیں کرتی تو سمجھو پھر اس کی شامت آ گئی ،کیونکہ اس کو جو راز معلوم ہو چکا ہے وہ سب جو بتا دے گا، وہ بتا دے گا کہ کس طرح تم اور ہمسایہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھے ہوئے ہو اور ایک دوسرے سے حظ اٹھاتے ہو، مہرو دانت میں ناخن لیے ہمہ وقت انہیں چباتی رہتی اور ڈینگی سے نمٹنے کا کوئی نہ کوئی حل سوچتی رہتی، آخر ایک دن اس نے ہمسایہ سے کہا کہ ڈینگی بھی پیچھے پڑ گیا ہے،اس نے کہا کہ ہمارے گھر میں کافی سونا اور نقدی پڑی ہے، ہم ایسا کرتے ہیں کہ گھر سے بھاگ جاتے ہیں، پھر اس ڈینگی نام کی بلا سے بھی پیچھا چھوٹ جائے گا اور ہم آرام سے کہیں جا کر زیست بسر کریں گے، وہاں ہمارے سوا کوئی نہیں ہو گا، ہمسائے نے سوچنے کیلئے ایک دو دن کا وقت مانگ لیا، دو دن بعد وہ ایک شرط پر مہرو کے ساتھ جانے واسطے تیار ہو گیا کہ وہ ابھی ایک مہینہ نکاح نہیں کرے گا، مہرو کے سر پہ ڈینگی اتنا سوار ہو چکا تھا کہ اس نے اس کی یہ شرط ہنسی خوشی قبول کر لی، ادھر اسی رات ان کا بھاگنے کا ارادہ تھا اور اسی دن آ کر بیگم صاحبہ کو ڈینگی نے آ کر ہمسائے اور مہرو کی حرکت کے بارے میں بتایا، بیگم صاحبہ بولیں کہ کرنے دو عیش، چھ ماہ بعد اس کی شادی ہے، یہی دن ہیں عیش کے، ڈینگی اپنا سا منہ لے کر واپس چلا گیا

Post a Comment

0 Comments