Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari By Amir Sohail Episode 10 - Daily Novels

ناول۔۔آفت کی ماری

ناول نگار۔۔۔عامر سہیل

قسط نمبر۔۔10


شگفتہ کی باتیں سن کر نمرہ اور دادی کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکتی معلوم ہوئی، شگفتہ نے کہا کہ میں تو پہلے اسے اپنا بہنوئی سمجھتی تھی اور ایک بھائی کی طرح ہمیشہ اس کے ساتھ برتاؤ کیا مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کی نیت میں فتور ہے، وہ اس کی واہیات طبعیت کا مالک ہے، مجھے تو خود کے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا، اختر اور اس قسم کی گھٹیا باتیں؟ سچ کہتے ہیں جب انسان کے ذہن و دل پر شیطان کا غلبہ آ جاتا ہے اور اس کی خواہشات اس قسم کی شیطانی اور بے تکی ہو جاتی ہیں تو پھر وقت اسے بہت جلد آئینہ دکھا دیتا ہے،وہ اپنوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور ہمہ سمت سے اسے فقط دھتکار ہی ملتی ہے ،اور یہ دھتکار اور نفرین وہ اپنے نصیباں میں خود لکھواتا ہے،جب اختر کی طرح یوں ہر کسی کی عزت سے کھلواڑ کرنے کا سوچو گے تو پھر کس طرح اس رب کی پکڑ نہیں ہو گی؟یہاں سے اگر بچ بھی گئے تو بھی کل کو مرنا تو ہے،کل جب میدانِ حشر میں نامہ اعمال کھلیں گے تو کس منہ سے جواب دیں گے،نمرہ نے شگفتہ کا سر اپنی گود  میں رکھا اور اس کے سینے پہ تھپکی دیتے ہوئے بولی کہ شگو اب تُو خود کو اختر سے دور رکھا ہے ،اختر کی نیت پہ اب مجھے بھی شک ہونے لگا ہے،میں ذرا ٹھیک ہو جاؤں تو تیرے لیے کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس سے تیرا نکاح کروا دوں گیں تا کہ یہ اختر تیرے بارے میں اس طرح کی کوئی گھٹیا بات سوچ ہی نہ سکے،مگر آپی وہ لڑکا بھی اختر کی طرح نکلا تو؟اس نے بھی اختر کی طرح میری زندگی اجیرن کر دی تو؟جیسے اختر بھائی نے تمہارے ساتھ کیا ہے،نمرہ نے اپنے آنسوؤں پہ ضبط کرتے ہوئے اور جذبات کو قابو میں لاتے ہوئے کہا کہ نہیں شگفتہ،سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے،کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں،آپ کا خیال رکھتے ہیں،آپ کے دکھ درد کے سنگی ہوتے ہیں،آپ کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور آپ کی خوشی کو اپنی خوشی گردانتے ہیں،آپ کو عزت دیتے ہیں اور عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے کی بجائے اسے سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں،عورت کی توہین نہیں کرتے،اس کے جذبوں کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس کے جذبات کی قدر کرتے ہیں،عورت کو اس کا مان اور وقار عطا کرتے ہیں،شگفتہ کو اپنے رخسار پر پانی کا قطرہ محسوس ہوا،اس نے نظر اوپر کر کے دیکھا تو نمرہ کی آنکھیں اشکبار پائیں،پوچھا کہ نمرہ،رو کیوں رہی ہو؟نمرہ گویا ہوئی کہ بس آج امی ابو بہت یاد آرہے ہیں،بس پھر دونوں بہنیں ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئیں ،اچانک اندر سے دادی کی آواز گونجی کہ شگفتہ میرے لیے چائے بنا دے،شگفتہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا کہ اچھا اماں،اور جلدی سے منہ دھو کر دادی واسطے چائے بنانے لگ گئی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*********

اختر اور شبنی بہت زیادہ خوش تھے،کیونکہ ان کا گٹھ جوڑ رنگ لا رہا تھا اور وہ آفت کی ماری نمرہ کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوتے معلوم پڑ رہے تھے،کھانا کھاتے ہوئے اختر نے ڈینگی کو کال کی تو وہ بھی آ گیا،اختر نے ڈینگی سے کہا کہ گاڑی تیار رکھنا کیونکہ میں نے آج  نمرہ کا معائنہ کروانے اسے ہسپتال لے کے جانا ہے،جونہی وہ گاڑی سے اترے تم نے گاڑی اس کے اوپر چڑھا دینی ہے اور تھوڑا سا دھکا مجھے بھی مار دینا ہے تا کہ نمرہ کو یا اس کے گھر والوں کو مجھ پر شک نہ ہو،ڈینگی نے ایک شیطانی قہقہ بلند کیا اور اختر سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اختر بھائی آپ بے فکر ہو جائیں آج اس نمرہ نام کا کانٹا آپ کی زندگی سے ہمیشگاں کیلئے نکال دوں گا،مگر میرا انعام تیار رکھنا،اختر نے کہا کہ ہاں ہاں انعام مجھے یاد ہے تم اس بابت بے فکر ہو جاؤ،جب شام کو اختر واپس آیا تو اس نے شگفتہ سے شرارت کرنا چاہی مگر اس نے آنکھیں دکھائیں تو نمرہ سے جھوٹی محبت کے دعوے کرنے لگا،نمرہ نے بھی دو لمحے کیلئے ہاں میں ہاں ملا دی،اختر نے نمرہ سے کہا کہ تیاری کر لو آج ڈاکٹر کے پاس جانا ہے،تمہارا معائنہ کروانے،نمرہ نے تیاری کی تو دونوں میاں بیوی چل دیے،اختر نے کار ڈینگی کے سامنے کھڑی کی اور یوں نمرہ کو نیچے اترنے کا کہا نمرہ جونہی دو قدم چل کے آگے گئی کہ ڈینگی نے اسے گاڑی دے ماری، وہ سڑک کے ایک جانب گری اور بیہوش ہو گئی، اختر اور ڈینگی اسے اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے، لوگوں نے ریسکیو 1122 والوں کو کال کی اور یوں اسے ہسپتال لے جایا گیا، ہسپتال میں ایک ڈاکٹر تھا وقاص، وقاص اچھا بھی تھا اور رحمدل بھی اس نے نمرہ کی مرہم پٹی شروع کی، اس نے جب بائیں ٹانگ ہلائی تو اسے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ بائیں ٹانگ ٹوٹ گئی، اس نے نمرہ کا آپریش کروایا اور پھر اسے اپنے گھر لے گیا، نمرہ کو ابھی اپنے بارے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کیونکہ چوٹ نے اس کے دماغ پر بہت اثر کیا، وہ دن بھر لاغر پڑی رہتی اور کسی سے بات تک نہ کرتی، ادھر اختر نے اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی بنوا لیا اور عدالت میں پیش کر کے شبنی سے شادی کر لی، وقاص کی امی بہت اچھی خاتون تھیں، انہوں نے نمرہ کا ہر ممکن دھیان رکھا اور اسے وقت پر نہ صرف دوا دی بلکہ خوراک میں بھی کوئی کثر اٹھا نہ رکھی، وہ اپنے بیٹے سے کہتی کہ بیٹا! یہ لڑکی مجھے اچھے گھرانے کی اور شریف معلوم ہوتی ہے، مگر لگتا ہے کہ اس کے اوپر ظلم بہت کیے گئے ہیں، کیونکہ میں نے اسے اکیلے میں اکثر روتے ہوئے دیکھا ہے، نمرہ اب شاک سے باہر آ چکی تھی، اس نے وقاص کی امی سے پوچھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچی اور یہ گھر کس کا ہے؟ نمرہ کو بتایا گیا کہ اسے اس حالت میں پڑے چھ مہینے سے زائد کا وقت بیت چکا ہے، اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور فوری خیال آیا کہ شگفتہ اور دادی کا کیا بنا ہو گا؟ وہ ایک دن وقاص کو لیے اپنے گھر پہنچی، جا کر دروازے پر دستک کی، اندر سے ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلا، اس نے نمرہ سے پوچھا کہ کسے ملنا ہے؟ نمرہ نے دادی اور شگفتہ کا کہا، اس نے کہا کہ یہ گھر تو اختر صاحب نے بیچ دیا ہے اور ان دونوں عورتوں کو بھی وہ ساتھ لے گئے، یہ سن کر نمرہ کی پریشانی اور بڑھ گئی اور اس نے اختر کے گھر کا رخ کیا تو معلوم پڑا کہ وہ لوگ تو شہر ہی چھوڑ کر چلے گئے، نمرہ کو آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا چھاتا دکھائی دیا، اس نے وقاص کو کہا کہ ابھی واپس چلو کل پھر ان لوگوں کو ڈھونڈیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*********


ہمسایہ بہت خوش خوش مہرو سے ملنے آیا، مہرو نے اسے دو چار سناتے ہوئے پوچھا کہ تمہاری ہمسائی سے بھی تمہارا چکر ہے؟ ہمسایہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا کہ نہیں نہیں سرکار، اس دل میں فقط آپ ہی بستے ہو، آپ کے سوا ہم کسی کے بارے سوچنا بھی گناہ تصور کرتے ہیں، مگر مہرو نے کہا کہ میرے ایک خاص بندے نے اس متعلق بتایا ہے اور دو تین ثبوت بھی پیش کیے، اب ہمسائے کو اپنی چوری عیاں ہوتی معلوم ہوئی تو اس نے کہا کہ حضور اب میں ہوں ہی اتنا پیارا اور خوبصورت کہ ہر لڑکی کا دل مجھ پر آجاتا ہے، ہمسائی ایک امیر زادی ہے، اس سے پیسے بٹورتا ہوں، گھر کا سرکٹ بھی چلاتا ہوں اور اپنے اوپر بھی خرچ کرتا ہوں، ظاہر ہے اب آپ جیسے خوبصورت لوگوں سے یاری ہے تو بن ٹھن کے نہ رہوں تو آپ کی توہین بھی ہے اور آپ کی شان کے خلاف بھی، مہرو نے اسے کہا کہ یہ بات تو تیری کھری اور سچی ہے، ہم اتنے امیر ہیں اب ہمارا چاہنے والا بھی امیر زادہ ہی دکھنے چاہیے نا، نہ کہ کباڑیا، اچھا بتاؤ وہ کتنی رقم دیتی ہے تمہیں، وہ جتنی بھی رقم دیتی ہے اس سے دوگنی میں بھی دوں گیں، مگر شرط یہی ہے کہ فقط میرے بن کے رہو، کیونکہ میں بھی اب تنگ آ چکی ہوں نت نئے نئے یار بنا کے اور بلیک میل ہو ہو کے، ہمسایہ فوری مان گیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انکار کا مطلب بھاری مال سے محرومی ہے، اور دونوں طرف سے جائے گا، اس لیے اس نے حامی بھرنے میں کسی قسم کی لجا سے کام نہیں لیا، مان بھی گیا اور کہا کہ آج کی ملاقات کے بعد اس محبت نامے کی پہلی قسط ادا کر دی جائے، مہرو  نے رقم اس کے حوالے کر دی اور اسے چور دروازے سے باہر نکالنے کے بعد آ کر باپ کو ایک چرس کا سگریٹ بنا کر دیا، آدھا خود بھی پیا اور پھر آ کر ماں کو چائے بنا کر دی اور پھر اس کے پاؤں دبانے لگی، پاؤں دباتے دباتے وہ سوچ ہمسائے کے بارے میں رہی تھی جو اس کے دل میں گھر کر چکا تھا ۔۔۔۔


Post a Comment

0 Comments