Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak Episode 18 | By Sidra Shah - Daily Novels

#_ساجن میرا قلفی کمار 

#__ســـــــدرہ شـــــاہ 

#قسط____18 


***


سالک بیٹا کل تم نے میرے ساتھ زبیر کے گھر جانا ہے 

بی جان نے سالک کو کہا جو بریانی کے ساتھ انصاف کرتے عاینہ کے ساتھ بھی چھیڑخانی  کر رہا تھا 

آہ ہ ہ ۔۔۔

سالک کے منہ میں نوالہ پھنس گیا تھا وہ بری طرح کھانسنے لگا 

یہ یہ لے پانی بیٹا آرام سے 

عالیہ ایوان نے بکھلاتے ہوے اس کو پانی دیا ۔

اب ٹھیک ہو ۔۔

ناعیمہ ایوان نے سالک کی پیٹھ سہلاتے ہوۓ کہا 

ج جی مام میں ٹھیک ہوں۔۔۔

 

وہ اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو روک رہا تھا 

گلے کا توپ بن گی یہ لڑکی میرے لے 

سالک نے دل ہی دل میں سحرش کو چار پانچ صلواتیں سنائی۔۔۔

!!! 

تو بیٹا تم نے کیا سوچا 

بی جان نے اپنا سوال پھر سے دہرایا ۔


بھائی آپ تو گئے 

عاینہ کھی کھی کرتی سالک کو تنگ کرنے لگی ۔۔۔۔!

ٹھیک ہے بی جان میں آپکو لے جاؤں گا ۔

سالک عاینہ کو آنکھیں دیکھاتا ہوا بولا ۔

سالک عاینہ تم لوگ ساتھ کیسے آۓ میرا مطلب ہے کہ عاینہ تو امریکہ گئی تھی نہ تو پھر 

مام یہ عاینہ چڑیل کا ہی پلین تھا آپکو سرپرائز دینے کا 

سالک نے ہنستے ہوۓ کہا 

ہاں مام بھائی نے نا مجھے پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ وہ کچھ دنوں میں گھر جائیں گے تو میں نے بھی اچانک پلین بنایا کہ کیوں نہ بھائی کے ساتھ آکے آپ دونوں کو سرپرائز دوں

عاینہ نے مزے سے کہا 

بلکل تم دونوں ہی تو ہمارے گھر کی رونق ہو 

ناعیمہ ایوان نے پیار سے کہا 

جی نہیں میں رونق ہوں سالک بھائی اندھیرا 

یہ کہتی عاینہ سالک کے بال بگاڑ کر بھاگ گی 

عاینہہہہ کی بچی ی ی ی 

سالک نے دانت پیستے ہوۓ کہا 

اللہ ان دونوں کو بری نظر سے بچاے 

بی جان نے دل ہی دل میں انکی نظر اتارتے ہوۓ کہا 

۝۞۞۞۞۝۞۞۞۞۝


ہاہاہا ہاہاہا سالک سالک سالک  

بہت دکھ ہورہا ہے تمھارے لے 

 پتا نہیں ایک نا پسندیدہ انسان کے ساتھ تم کیسے زندگی گزارو گے  پر گزارنی تو ہو گی نا

ایسی جگہ مارے گی جہاں پانی تک میسر نہ ہو گا 

بپچن سے تم نے اور تمھاری اس سوکالڈ بہن نے ہمیشہ نیچے گرایا ہے 

پر اب نہیں اب بلکل نہیں اب تم تڑپو گے تم جلو گے سحرش کے جال میں  اب تو چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری کل آرہی ہے وہ بڑھیا تمھاری آزادی کا پروانہ میرے ہاتھوں میں تھمانے 

افسوس تم کچھ نہیں کر سکو گے کچھ نہیں  

اس کی آوازہ میں سانپ کی سی پھنکار تھی 

"""سحرش نے خود ہی خود پر ہدایت کا راستہ بند کیا 

دل۔ دماغ ۔ ضمير کی ملامت پر اس نے کان نہیں دہرے مسلسل دستک پر بھی اس نے دیکھنے کی کوشش نہ کی 

اللہ انسان کی رسی کو ڈھیل دیتا ہے پر ایک دن جب اس کی رسی پکڑ میں آجاے تو انجام برا ہی ہوتا ہے 

""ْْْْْْْ

*۞۞۞۞*

ارے بی جان آپ کب آئیں السلام علیکم کیسی ہیں آپ بی جان اور

طاہرہ بیگم  بہت محبت اور تپاک سے ملی 

 وعلیکم اسلام میں تو ٹھیک ہو طاہرہ بچے تم بتاو سحرش اور زبیر اور صارم کیسے ہیں

بی جان نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا 

بی جان سب ٹھیک ہیں سحرش ابھی آنے والی ہے گھر اور زبیر اور صارم آفس میں ہیں اور 

طاہرہ بیگم نے مسکراتے ہوے کہا 

 آپ بیٹھیں بی جان  میں چاۓ پانی کا انتظام کرتی ہو ۔

طاہرہ بچے میں نے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے تم چھوڑو اس تکلف کو میری بات صبر وتحمل سے سنو

بی جان نے بات کرنے سے پہلے تہمید باندھی 

جی بی جان بولیں آپ 

طاہرہ بیگم نے احترم سے کہا 

بات دراصل یہ ہے طاہرہ کہ بیس سال پہلے بھی ہم نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں مجبور ہوکے یہ فیصلہ لیا تھا ۔ 

اور آج ہم پھر ایسا ہی فیصلہ لینے والے ہے 

کہ 

دادی آپ کب آئی 

ابھی عالیہ ایوان اپنی بات مکمل کرتی کہ سحرش کی آمد ہوئی ۔

میں بس تھوڑی دیر پہلے ہی آئی ہوں ادھر آکے بیٹھو کچھ بات کرنی ہے 

جی بولیں نا دادی 

سحرش نے خوش ہوتے ہوئے کہا اس کی آنکھوں میں انوکھی سی چمک تھی جیت جانے کی 

دیکھو بیٹا تم بہت اچھی ہو مجھے یقین ہے جس گھر بھی جاو گی اس کو خوشیوں سے بھر دو گی پر بیٹا بات دراصل یہ ہے کہ سالک کسی اور سے پیار کرتا ہے 

کیا یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ دادی آپ نے وعدہ کیا تھا سالک صرف میرا ہی بنے گا اور اب آپ ہی اپنے وعدے سے مکر رہی ہیں 

سحرش نے غصے سے آگ بگولہ ہوتے کہا اس کی تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفلوج ہو گئی تھی جیت کے آخری دہانے پر آکے ہار جانا سحرش سے برداشت ہی کہاں ہورہا تھا اس کا دل کر رہا تھا ساری دنیا کو آگ لگا دے اس کی برسوں کی محنت کا یہ صلہ اس سوچ کے آتے ہی اس کے غصے میں مزید اضافہ کر رہا تھا 

سحرش میری جان یہ تو دلوں کے معاملے ہوتے ہیں تم  تو ماشاءاللہ سے بہت سمجھدار ہونا میری پیاری بچی سمجھنے کی کوشش کرو 

عالیہ ایوان نے سحرش کے غصے کو مدنظر رکھتے ہوۓ پیار سے سمجھانا چاہا 

اوہ پلیز بس کریں اپنا یہ ڈھونگ یہ پیار بھری چپڑی چوپڑی باتیں 

آپ نے میری ماما کے ساتھ بھی بیس سال پہلے ناانصافی کی تھی اور آج اس کی بیٹی کے ساتھ بھی وہی واہ واہ آپ تو خاصی چالباز نکلیں

سحرش طنزيہ لہجے میں کہتی 

عالیہ ایوان کو دنگ کر گئی 

عالیہ ایوان تو خواب میں بھی ایسا رویہ سحرش کا نہ سوچا تھا 

اوہ کم آن اولڈ لیڈی آپ نے کیا سوچا میں بھی طاہرہ مام کی طرح خاموش ہو جاو گی 

تو یہ اپکی سوچ کی غلطی ہے میں سحرش ہوں سحرش 

اپکی اس دو ٹکے کے بہلاوے میں نہیں آنے والی سمجھی آپ

سحرش نے غصہ سے دانت پیس کر وارن کیا ۔

یہ تربیت کی ہے تم نے طاہرہ سحرش کی یہ تمیز سکھائی ہے تم نے 

طاہرہ بیگم جو شوکٹ سی صورتحال ملاحظہ کر رہی تھی بی جان کی بات پر اسکو دیکھنے لگی 

تو اس نے غلط ہی کیا کہا ہے بی جان سحرش نے جو سچ تھا وہی تو کہا 

اور سچ آپکو ہضم ہونے سے رہا 

طہرہ بیگم نے بھی طنز کے تیر چلاۓ جو عالیہ ایوان  کو لہولہان کر گئے 

وہ صوفے پر ڈھے سی گئی 

میں سالک کی شادی سحرش سے ہرگز نہیں کرواوں گی یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے 

اپنوں کی بےعنائی  کے دکھ سے سنبھل کر عالیہ ایوان نے ٹوٹے ہوۓ لہجہ میں کہا 

اوہ بڑھیا تمھیں زندگی پیاری نہیں ہے لگتا ہے کیسے نہیں کرواؤ گی شادی تو  میری سالک سے ہی ہو گی 

سحرش عالیہ ایوان  پر حملہ آور ہوئی 

چ ھ چھورو 

عالیہ ایوان کی آنکھیں نکلنے کے درپہ تھی سحرش ابعالیہ ایوان کی آنکھیں نکلنے کے درپہ تھی سحرش اب بھی عالیہ ایوان کا گلہ پکڑے ہوۓ تھی۔۔


ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ 

حال میں زوردار تھپڑوں کی آوازہ گونجی 

بے حیا گستاخ  بے شرم 

زبیر نے سحرش کے منہ پر تھپڑوں کی برسات کر دی 

چھوڑیں کیا کر رہے ہیں مار دے گیں کیا 

طہارہ بیگم نے حواس باختہ ان کی طرف بڑھ کر سحرش کو اپنے حصار میں لیا 

تم تو اس سے بھی زلیل عورت ہو جس کے سامنے اسکی سگی پھپھو کا گلہ دبایا جارہا ہے اور تم مزے سے دیکھ رہی تھی 

زبیر ایوان تو جیسے غصہ سے پاگل ہورہے تھے    ۔ 

سالک اور زبیر ایوان اسی اثناء میں اندر داخل ہوۓ تھے جب سحرش عالیہ ایوان کا گلہ دبا رہی تھی 

وہ دونوں جلدی سے آگے بڑھے تھے سالک  عالیہ ایوان کے پاس بھاگ کر آیا  جو اپنی سانسیں ہموار کر رہی تھیں

سحرش کے جان لیوا حملہ سے اس کی گردن سرخ ہو چکی تھی 

جس پر سحرش کی انگلیوں کے نشانات سالک کو اکسا رہے تھے کہ وہ سحرش نامی ڈائن کو صفہ ہستی سے ہی مٹا دے 

بی جان نے سالک کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نفی میں سرہلا کر ایسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھا 

سالک نے بھی بی جان کی بات مانتے ہوۓ انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی 

طاہرہ بیگم تو آپ آپ ہوگئی تھی زبیر کی بات سن کر 

اب یوں بغلیں جھانکنے سے کچھ فائدہ نہیں اپکی پیاری بیٹی نے آج میرا سر شرم سے جھکا دیا 

زبیر خون خوار نظریں سحرش پر گاڑے بولا 

 تم ہی ہر جگہ بڑا دم بھرتی تھی اپنی تربیت کا  

سحرش کی تربیت پہلی اچھی کرتی اب زانو پٹینے کا کوئی فائدہ نہیں اب وقت ہاتھ سے نکل چکا 

تم نے ہمھیں زیروزبر کر دیا سحرش 

بس کر جا خداراہ  میرا دل پھٹ جاۓ گا 

طاہرہ بیگم نے زاروقطار روتے ہوۓ کہا 

نہیں آج تمھیں سننا ہی ہوگا تم نے جس کے اندر اتنا زہر بھر دیا ہے نا یہ اس کا نتیجہ ہے 

سرکش بچے ہی آخرکار والدین کے لیے مصیبت بنتے ہے ۔ لو آج اس کا عملی نمونہ ہماری بیٹی نے پیش کر دیا 

یاد کرو اس وقت کو طاہرہ جب میں کہا کرتا تھا بچوں کو زیادہ سر چڑھانا گویا انکی زندگی خراب کرنے کے مترادف ہے 

پر تم میری باتوں کو سنی ان سنی کر دیتی تھی 

سحرش نے ہمھیں کہیی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا 

اللہ معاف کر دے اس بدنصیب باپ کو جس کی سحرش جیسی بیٹی ہے ارے مجھے تو اسے بیٹی کہتے ہوۓ بھی شرم آرہی ہے 

زبیر ایوان گھٹنوں کے بل عالیہ ایوان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا 

زبیر میاں تمھاری کوئی غلطی نہیں 

ہمارے خود کے  چراغ تلے اندھیرا ہے 

سالک مجھے لے جاو یہاں سے 

عالیہ ایوان نے دکھی لہجہ میں کہا 

 جی بی جان چلیں 

سالک نے عالیہ ایوان کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور ایک غضبناک نظر ان دونوں ماں بیٹی پر ڈالی اور عالیہ ایوان کو لے کر چلا گیا 

تف ہے تم دونوں پر یہ کہتے زبیر ایوان بھی چلا گیا 

۞۞۞۞۞۞۞۞

عالیہ ایوان بار بار سالک کو دیکھ رہی تھی اور پھر نظریں شرمندی سے جھکا رہی تھی 

آخر کو اسی نے ہی تو سحرش کا انتخاب کیا تھا اور آج وہ اپنے انتخاب پر شرمندگی کی اتھاه گہرائیوں میں ڈوب رہی تھی 

خون سفید ہونا تو سنا ہی تھا پر کیا اتنا سفید ہو جاتا ہے کہ اپنوں کے ہی سانس روک دے جائیں

یہ آج معلوم ہوا تھا عالیہ ایوان نے سالک اور عاینہ سے بڑھ کر سحرش کو پیار دیا اور اس پیار کے بدلے میں کیا ملا ؟

موت جو اگر سالک اور زبیر نہ آتے ہو وہ تو زندہ ہی نہ بچتی 

انہی سوچوں میں طویل سفر تمام ہوا 

آئیے بی جان آرام سے 

سالک نے بی جان کی طرف کا دروازہ کھول کر آرام سے  ان کا ہاتھ پکڑ کر نکالا

۞۞۞۞۞

Post a Comment

0 Comments