Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan By Gohar Arshad Episode 12 - Daily Novels

ناول:عشقِ یزداں

قسط:12

شاید بھلی محسوس نہ ہوں۔شاید آپ کو لگے کہ میں خود پرست ہو رہی ہوں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔میں فقط آپ کو معاشرے کی حقیقت سے آشنا کرنا چاہ رہی ہوں۔

ان سب باتوں کو سننے کے بعد میں یہ سمجھوں کہ آپ میرے ساتھ گاؤں جانے کو تیار ہو؟؟

اب اس کے لہجہ میں کچھ خوف سا محسوس ہوا۔

جی بالکل میں نے پرتپاک انداز میں کہا اور پھر اک لمحہ کے لیے سوچا کہ کچھ زیادہ تو نہیں ہو گیا؟؟

اور میری بات سنوں ندیم اب تو ابو کو بھی سب پتہ چل گیا ہے،وہ میری شادی بہت جلد کرنے کا سوچ رہے ہوں گے،ہمارے پاس فقط اک ہفتے کا وقت ہے کچھ کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے تم سمجھ رہے ہو ناں میں کیا کہہ رہی ہوں،پلیز جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا۔

ہاں ہاں میں کل ہی تم کو سب کچھ بتا دوں گا بس اپنا خیال رکھنا۔

ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی؟؟اب دل کو کسی حد تک تسلی ہوئی۔

اوکے اللہ حافظ۔

اوکے،

مغرب کا وقت تھا،ہر طرف تاریکی نے ڈیرے جمنا شروع کردیے تھے،ہلکی ہلکی مدہم شوخ ہوا میرے بالوں کو چھو کر گزر رہی تھی۔سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔کھانا کھانے کے بعد سب نیند کی گہری آغوش میں چلے گئے۔لیکن بیقرار دل کو چین کہاں آتا ہے۔سبھی رونقیں منہ موڑ لیتی ہیں۔

اک بات تھی ویسے جلد بازی میں ندیم کا کوئی ثانی نہ تھا۔اس نے دوسرے دن ہی کال کر دی۔اور مجھے بتایا کہ سارے انتظامات میں کر چکا ہوں۔تم بس چلنے کے لیے تیار رہنا۔باقی میں تھوڑی دیر کے بعد کال کر کے سب بتاتا ہوں۔ابھی امی سے بات کر لوں۔

السلام وعلیکم امی کیسی ہیں آپ؟

وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں بیٹا تم کیسے ہو اور آگئی اپنی امی کی یاد تمہیں۔

کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ امی آپ کو کون بھول سکتا ہے میں بس کچھ کام میں مصروف رہا اس وجہ سے بات نہیں کر سکا۔

او اچھا اچھا اب ان کے لہجے میں اطمینان محسوس ہوا۔پہلے پہل تو لگا تھا کہ ان کو کافی غصہ ہے مجھ پر۔

اچھا تو امی آپ کو بتایا تھا ناں کہ یہاں پر اک لڑکی ہے جس کو میں بہت پسند کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ہوا یہ کہ اس کے ابو کو پتہ چل گیا ہے۔وہ اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہ رہے ہیں؟؟؟

تو بیٹا انھوں نے اس کے بارے میں جو سوچا ہو گا بہتر ہی ہو گا ناں۔

تو میرا کیا۔۔۔۔۔۔اس بار تھوڑا تلخ لہجہ میں 

او کچھ نہیں ہوتا وقت گزارنے کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔تم فکر نہ کروں ؟؟

میں نے آپ سے یہ سب سننے کے لیے کال نہیں کی۔میں نے یہ بتانے کے لیے کال کی ہے کہ میں اس کو لے کر گاؤں آرہا ہوں۔اک دوست کا مکان خالی ہے شہر میں شفٹ ہو گئے ہیں۔مکان کب کا خالی ہے۔اس کی چابیاں میرے پاس ہیں۔بس آپ ابو کو راضی کریں گی کہ وہ ہماری شادی کر دے بس؟؟؟

یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔پاگل ہو گئے ہو کیا؟؟؟

تمہیں پتہ ہے اک لڑکے لڑکی کا شادی کے بغیر اکٹھے رہنے ٹھیک بات نہیں 

اسی لیے تو کہہ رہا ہوں آپ ابو کو راضی کر کے ہماری شادی کروا دیں پلیز؟

او ندیم تم کو میری بات سمجھ کیوں نہیں آ رہی یہ اتنا آسان نہیں ہے لڑکی کو گھر سے بھاگا کر شادی کرو گے۔کچھ تو شرم کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ چیخ کر بات کر رہی تھی۔اگر اس کے گھر والے تھانے چلے گئے تو ساری زندگی تمہیں جیل میں نکالنی پڑے گی اور گھر کے حالات کا تم کو اندازہ ہے۔پلیز ایسا کچھ مت کرنا۔

اور ویسے بھی کوئی رشتہ مانگنے کی بات ہو کچھ اور ہو تو میں قائل کرو مجھے بتاؤں میں ان کو کیا کہوں کہ آپ کا بیٹا لڑکی کو بھاگا کر لا رہا ہے آپ اس کی اس سے شادی کروا دے۔کیا ہو گیا ہے تمہیں ندیم اچھے بھلے تھے تم؟؟؟

آپ جو کچھ مرضی کہہ لے میں کل صبح اس کو لے کر آرہا ہوں۔مجھے کوئی اور بات سنی ہی نہیں سو پلیز آپ یہ باتیں اپنے پاس رکھے میں کچھ کر لوں گا؟؟؟

ہاں کر تو لو گے مجھے یقین ہے تم اتنے بڑے جو ہوگئے ہو۔مجھے ان کی زبان میں کچھ طنز اور کچھ گلا محسوس ہوا۔۔۔۔۔پر کیا فرق پڑتا ہے انسان جب ہواؤں میں ہو تو لیکن وہ یہ چیز بھول جاتا ہے کہ ہواؤں کا بھروسہ کرنے والے اکثر خاک کی نذر ہو جایا کرتے ہیں۔

میں نے غصے سے فون کاٹ دیا اور دیر تک اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا مگر سب فضول۔۔۔۔۔۔

میرے پاس بس بیس تیس ہزار تھا جس سے مجھے یقین تھا کہ اک دو ماہ بآسانی گزار جا سکتے ہیں۔پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔میں نے اب دوبار شفق کو کال کی رات کے نو بج رہے تھے۔اس نے پہلی ہی رنگ پر فون اٹھ لیا شاید وہ اسی کے انتظار میں تھی۔

اچھا تو شفق میری باتیں غور سے سننا گھر سے کوئی بھی لمبے چوڑے سامان کو لانے کی ضرورت نہیں ہے۔تم بس اک شارٹ سا بیگ جس میں ضرورت کی کچھ اشیاء ہوں تمہاری،اس کے علاؤہ کوئی گھر کا زیور یا کچھ بھی لانے کی ضرورت نہیں اور صبح 5 بجے گاڑی جاتی ہے پہلی ہمارے گاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔تم ایسا کرنا 3:30 تک تیار ہو جانا میں تو بس سٹاپ پر تمہارا انتظار کروں گا لیکن تمہارے لیے گاڑی بھیج دوں گا جو تم کو بس سٹاپ پر لے آئے گی۔اگر گاڑی والا نہ بھی آیا تو تم آجانا میں وہی ہوں گا۔اور کچھ پوچھنا ہو تمہیں؟؟؟

اور ندیم اگر تم نہ آئے تو؟؟؟؟

کیا مطلب میں  نہ آیا میں وہی پر ہوں گا۔میرا بھروسہ رکھوں تم بس وقت پر پہنچ جانا۔

اچھا ٹھیک ہے میں آ جاؤ گی لیکن یہ تو آپ کو مجھ سے بہتر پتہ ہوگا کہ عورت جب منہ باپ کی دہلیز کو پار کر دے تو اس پر واپسی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جایا کرتے ہیں۔؟؟؟

اچھا تمہاری یہ باتیں نہیں ختم ہونی میں سامان پیک کر لوں صبح ملتے ہیں۔گڈ نائٹ

اوکے۔

میرے گھر والوں کو تو خبر تک نہ تھی کہ میں کیا کرنے جارہی ہوں مگر مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ جو میں کرنے جارہی ہوں وہ کرنے والی لڑکیوں کا انجام کیا ہوتا ہے؟؟؟لیکن ہو کہتے ہیں ناں کہ وہ عشق ہی کیا جو انجام کی خبر رہنے دیں۔

رات کافی دیر تک نیند کا نام و نشان نہ تھا پھر آ ہی گئی۔رات کچھ وقت تک تو عجیب و غریب خیالات نے میرا محاصرہ کیے رکھا۔لیکن میں ہر بار خود کو قائل کرنے میں کامیاب رہی۔میں اتنی خوش تھی کہ جلد بازی میں موبائل بند ہوگیا اور مجھ بالکل محسوس نہ ہوا۔

ندیم کو دس بجے امی کے موبائل سے لگاتار کالیں آنا شروع ہوگئی ۔اس نے غصے میں دو تین کال نہ اٹھی پر آخر کا تنگ آ کر اس نے غصے سے فون اٹھایا اور بولا کیا ہے اب ؟؟؟اب رات کے دس بج رہے ہیں ابھی تو چین سے رہ لینے دیں۔

اب چین کہاں میرے بچے...........۔۔۔۔۔۔ان کی اک زور در چیخ نکلی جس نے میری روح کو چھلنی چھلنی کر دیا۔

کیا ہوا ہے امی آپ ٹھیک تو ہیں۔

میں تو ٹھیک ہوں پر تمہارے ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

کیا ہوا ہے ابا کو بتائیں ناں امی میں ابھی آ رہا ہوں۔آپ ہیں کہاں ؟

جو تم نے کال پر باتیں مجھے کہی وہ انھوں نے سن لی تھی۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا وہ بہت حساس ہیں کچھ بھی اس طرح کا برداشت نہیں کر سکتے۔تم سے بات کرنے کے بعد جب میں باہر گئی تو گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔میں نے دو تین بار پوچھ طبعیت ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔۔۔۔۔مجھے ہاں کہہ کر بھیج دیا۔میں کچن میں تھی کہ ان کے گرنے کی آواز آئی میں بھاگ کر باہر آئی تو وہ زمیں پر بے ہوش پڑے تھے میں نے شور مچایا تو ساتھ گھر والے انوار بھائی آئے۔انھوں نے حالت دیکھی تو کہا کہ ہاسپٹل لے کر چلتے ہیں شہر میں لے کر آگئے تو ابھی کچھ دیر پہلے ۔۔۔۔؟

کیا کچھ دیر پہلے بولے ناں امی۔۔۔؟

کچھ دیر پہلے انوار بھائی ہمارے پاس آئے تو انھوں نے بتایا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ماں زار و قطار رو رہی تھی۔

میرے تو جیسے پاؤں سے زمیں نکل گئی تو ایسا کسے ہو گیا۔شاید ابو کی موت کا ذمہ دار میں تھا ناں میں امی کے ساتھ یہ باتیں کرتا اور ناں ایسا ہوتا۔اب مجھے اپنا قصور صاف نظر آ رہا تھا۔

میں نے امی کو کہا کہ آپ مجھے پتہ بتائیں میں ابھی آتا ہوں۔قریب اک دوست کو کال کر کے گاڑی منگوائی

اور ہاسپٹل پہنچ گیا۔امی نے پہلے پہل بہت کوسا لیکن پھر مجھے سے لپٹ کر رونے لگی اور انھوں نے جو بھی کیا ہو ٹھیک تھا میرے جیسے شحص کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔

شفق کے ہاں آج سورج نے طلوع ہونے میں کافی تاخیر کرنی تھی کیونکہ اس کے آنے سے پہلے پہلے شفق کو نئے راستوں کا انتخاب کرنا تھا۔اس کی اچانک کسی خواب کی وجہ سے آنکھ کھلی تو اٹھ کر بیٹھ گئی۔اس نے دماغ پر زور دے کر سوچنے کی کوشش کی کہ اس کو کیا کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ آج جلدی اٹھنا چاہتی تھی۔اس نے سوچا جب تک یہ ذہن میں آتا تب تک ٹائم ہی دیکھ لوں اس نے وقت کو دیکھنے کے لیے موبائل تکیہ کے نیچے سے نکالا اس کے دماغ میں فورا سے آگیا کہ آج اس نے ندیم کے ساتھ جانا تھا۔ٹائم دیکھا تو چار سے کچھ منٹ اوپر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تیزی سے واشروم کی طرف بھاگی جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر کپڑے چینج کیے اور بیگ جو وہ رات کو پیک کر چکی تھی لیا اور کمرے سے باہر کی طرف لپکی تاکہ جائزہ لے سکے کوئی جاگ تو نہیں رہا مکمل خاموشی تھی وہ اپنے کمرے سے جوں ہی نکلی ابو کے کھانسی کی آواز سنائی دی وہ آہستہ آہستہ گھر کے گیٹ پر آگئی۔وہاں سے اس نے دیوار کے اوپر چڑھ کر دوسری طرف چھلانگ لگا دی۔۔۔۔۔۔گیٹ کو کھولا ہی نہیں کیونکہ مین کیٹ کی دیوار زیادہ اونچی نہ تھی۔۔۔۔۔اس نے گھر کے باہر دیکھا دور دور تک اس کو کوئی گاڑی نظر نہ آئی۔اس نے بغیر انتظار کیے بس سٹاپ پر جانے کا فیصلہ کیا۔صبح فجر کی اذانیں ہونا شروع ہوگئی۔ہر طرف چرند پرند حیوانات و نباتات اللہ کی حمد و ثناء میں مشغول ہو گئے۔سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے کے انتظار میں اپنی ہلکی ہلکی شعاعیں زمیں پر بھیج رہا تھا۔شاید اسے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اس کی پہلی کرن سے پانی کے اوپر چمکتا بلبلا فقط آنکھوں کا دھوکا ہے بس۔

ہاسپٹل کے اندر میں امی اور انوار صاحب ہی تھے لیکن اب ابو کی موت کی خبر سارے گاؤں میں پھیل چکی تھے ہمارے قریبی رشتے دار کچھ ہاسپٹل کا رخ کر چکے تھے اور کچھ کرنے والے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کو لے کر اب گاؤں ہی چلتے ہیں وقت بھی کافی ہوگیا ہے ان کو فوت ہوئے اور دوسری بات کہ ہاسپٹل کے تمام معاملات بھی مکمل ہوگئے ہیں۔انوار صاحب نے میری اس بات سے اتفاق کیا انھوں نے مجھے سے کہا کہ تم اپنی امی کا خیال رکھوں باقی انتظامات میں دیکھتا ہوں میں امی کے پاس ہی کھڑا رہا لیکن وہ تھی کہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ ان کی سانسیں بھی یہی رک جانی ہیں۔بہرحال میرے بار بار اصرار کرنے پر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوتے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments