Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan By Gohar Arshad Episode 11 - Daily Novels

ناول؛عشق یزداں 

قسط:11

انسان کی کوشیش ضروری ہے باقی تو باقاعدگی کوئی بھی نہیں کر سکتا۔بہر حال میری باتوں میں کچھ برا لگے تو بتائیں گا اصل میں شروع سے ہی ایسی ہوں جو کچھ آتا ہے منہ میں بول دیتی ہوں۔

اچھے تو کافی رات ہوگئی ہے میں سونے لگی ہوں جب میں مس کال کروں اس وقت ہی کال کیجیے گا؟؟؟موبائل امی کے پاس ہوتا ہے زیادہ؟؟؟

اچھا ٹھیک تو پھر آپ کب مس کال کرے گی؟؟

میں انتظار کروں گا؟؟اور میں اک دو دن میں دوکان پر آجاؤں گا آپ چکر لگنا نہ کبھی؟؟؟

میں نے نیم بیہوشی کے عالم میں کہا۔۔۔۔ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی،،اللہ حافظ

اچھا اللہ حافظ۔

 فون پر بات ہوئی وہ پہلا دن تھا اس کے بعد ہفتے میں اک دو بار بات ہوتی یہی معمول کی باتیں۔۔۔۔۔پھر کیا تھا؟؟ہفتے دنوں میں دن گھنٹوں میں منٹوں میں تبدیل ہوتے رہے۔روز روز امی کے موبائل سے بات کرنا مشکل تھا ندیم نے موبائل دے دیا رات تو دیر دیر تک بات ہوتی۔کبھی کبھار بازار جانے کا اتفاق ہوتا تو ان کا دیدار میسر آجاتا۔ان نارمل اور روٹین کی باتوں میں پتہ نہیں وہ پیار محبت کہاں سے امڈ آیا۔اب ہر وقت ان کے خیال ہی دل و دماغ میں سرائیت کرنے لگے،جوں جوں وقت آگے جاتا جذبات کی فروانی اور شدت مسلسل بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔باتوں باتوں اک دوسرے کی پسند ناپسند سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ہمارے ذہنوں میں سما چکی تھی۔محبت کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ میرے گھر والے میرے رشتے کے بارے میں سوچنا شروع ہو گئے تھے۔یہ بات ندیم کو بتائی تو وہ بالکل ہی ٹوٹ چکا تھا اس کا کہنا یہ تھا کہ میرا باپ اک معمولی مزدور ہے اور اس کے علاؤہ ہمارے پاس کسی کو بتانے کے لیے کچھ خاص نہیں۔ تمہارے ابو کبھی بھی نہیں مانے گئے اس رشتے کے لیے۔۔۔۔اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی بار بار کہتا کہ میں بھی کوئی خاص کام نہیں کرتا۔جس کو دیکھا کر تمہارے ابو ہماری شادی کی حامی بھرے۔ادھر ان ہی دنوں کے اندر اک دن میں موبائل چھپ کر چارج پر لگا رہی تھی کہ امی نے دیکھ لیا انھوں نے بار بار زور دیا کہ میرے پاس یہ موبائل کہاں سے آیا؟؟؟

میں نے ان کو ادھر ادھر کی باتوں میں لگانے کی بہت کوشیش کی لیکن ان کو یقین ہو گیا تھا کہ کسی لڑکے نے اس کو موبائل دیا ہے اور یہ اس سے بات بھی کرتی ہے۔یہ بات وہ ابو کے کانوں تک پہنچا چکی تھی۔ابو نے مجھے کچھ کہا تو نہیں تھا لیکن ان کے رویے سے مجھے لگتا تھا کہ کافی ناراض ہیں مجھ سے؟؟

میں نے ندیم کو emotional blackmail کر کے یعنی اس کے سامنے رونا دھونا کر کے اس کو رشتہ کے لیے راضی کر لیا تھا۔اس نے اپنے ماں باپ کو میرے گھر میرے رشتے کے لیے بھیجنے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔کہ اچانک اک دن ابو نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بڑے تحمل کے ساتھ یہ بتایا کہ میں نے تمہارا رشتہ دور کے اک رشتے دار کے بیٹے سے طے کردیا ہے مجھے تم پر پورا یقین ہے تم ناں نہیں کرو گی؟؟سب نے کہا میں تم سے پوچھ لوں لیکن مجھے اپنی بچی پر پورا بھروسہ ہے وہ کبھی بھی میرے فیصلے سے انحراف نہیں کرے گی؟؟

اب ان کے سامنے کچھ کہنے سے رہی میں نے رونا شروع کر دیا

 انھوں نے یہ سمجھا کہ مجھے ان سے جدائی کا دکھ ہے لیکن اس دنیا کو کون سمجھائے کہ کچھ رشتہ بیس سال تک ساتھ ہونے کے باوجود چند گھڑیوں میں بھولائے جا سکتے ہیں۔

 لیکن کچھ چند مہینوں میں اتنے خاص ہو جاتے ہیں کہ ان کو بھول جانا ناممکن سا معلوم ہوتا ہے۔اس دن خود کو کسی اور کا سوچ کر ہی میرے جسم سے جان نکل گئی تھی۔

اور اب یہ سب سوچ کر نئی اذیت مل رہی تھی کہ وہ کچھ الٹا سیدھا نہ کر لے ،کیونکہ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ تمہارے بغیر میرے لیے چند سانسیں بھی حرام ہیں

اب میرے دماغ میں دو ہی خیال تھے۔محبت میں پتہ نہیں انسان کو کیا ہو جاتا ہے اس کے علاؤہ دنیا آسائش بھی کچھ قدر وقیمت نہیں رکھتی۔اس کے لیے کل کائنات اک وہی شخص ہوتا ہے۔اور اگر وہ نہیں تو پھر زندگی کا اختتام بہتر راستہ ہے۔اور مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے تو اس سٹیج سے ہر اک عاشق گزرتا ہے۔پر فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ خود کو بچا لیتے ہیں اور کچھ محبت کی خاطر خود کو قربان کر دیتے ہیں۔میرے پاس اک یہ راستہ تھا کہ اس کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لوں یا پھر خود کو محبت پر قربان کر دوں لیکن کوئی بھی فیصلہ اس سے پوچھ کر لینا بہتر تھا۔

اب ہوا یوں کہ میں جوں ہی کمرے سے باہر نکلی تو اک طرف امی کھڑی سن رہی تھی۔مجھے غصے تو ابو پر تھا امی کو کافی کچھ کہہ دیا اور ساتھ میں یہ کہا کہ فلاں لڑکا ہے فلاں جگہ رہتا ہے شادی کروں گی

 تو اس سے۔۔۔۔۔۔۔اس کے علاؤہ کبھی سوچنا بھی مت ؟؟؟

یہ سب کہہ کر میں اپنے کمرے میں چلی آئی اس کو کال کی اس کا نمبر مصروف لگ رہا تھا مسلسل کچھ آٹھ دس کالیں کی وہ سمجھ گیا کچھ مسئلہ ہے؟؟

ابھی تک دوکان پر ہی وہ کام کر رہا تھا تنخواہ باقی ملازموں کی نسبت اس کی زیادہ تھی اور ہوتی کیوں نہ وہ میری محبت تھا اور نہایت ہی ایماندار تھا۔دو سال کا عرصہ ہوگیا تھا وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔۔۔شاید اس کی کوئی ضروری کال تھی،نہایت ہی غصے بھر لہجہ میں۔۔۔۔اس نے کال اٹھتے ہی کہا

 کیا ہو گیا شفق؟؟؟

غصے تو شاید مجھے محسوس ہوا وہ مجبوری کے سے انداز میں بولا لیکن

میں سے زور زور سے رونا شروع کردیا اب اس کا لہجہ غصے سے محبت کی طرف مڑ گیا کیا ہو گیا میری جان ایسے کیوں رو رہی ہو کچھ بتاؤ تو ؟؟؟

وہ دوکان سے نکل کر دور کہیں جا کر ہوٹل پر بیٹھا۔

میں پہلے سے تکلیف میں ہوں اور تم بھی اس طرح سے بات کرو گے تو کیا رونا نہیں آئے گا۔؟؟؟

اچھا اچھا سوری مجھے تھوڑی ناں پتہ تھا کہ میری جان کو کوئی تکلیف ہے پلیز بتاؤ تو ہوا کیا ہے؟؟؟

خود کو سنبھال کر میں نے کہا بتاؤں گی تو تم برداشت نہیں کرسکو گے؟؟رہنے دو بس

پلیز یار شفق جب تک بتاؤ گی نہیں مجھے کیسے پتہ چلے گا اور اگر نہیں بتاؤ گی تو زیادہ ٹینشن ہے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہو گا ؟؟؟؟

اچھا ٹھیک بتا رہی ہوں لیکن ٹینشن نہیں لینا بہتر ہو گا۔میری جان ہو پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ ہے آج ابو نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔میں تو کافی ڈر گئی تھی لیکن انھوں نے بڑے پیار سے پاس بیٹھا کر بتایا کہ انھوں نے میرا رشتہ۔۔۔۔۔۔۔اف۔۔۔۔۔۔۔کیسے بتاؤں میں تمہیں ؟؟؟؟

انھوں نے میرا رشتہ اک دور کے رشتے دار کے بیٹے سے طے کر دیا ہے۔

ہیلو ہیلو۔۔۔۔۔ندیم تم سن رہے ہو۔پلیز بولو ناں ۔۔۔۔۔۔اک آہ سنائی دی اور پھر کال کٹ گئی۔میں نے لگا تار مسیج کال جاری رکھی۔۔۔۔۔۔۔پلیز ندیم سنبھالیں خود کو کچھ نہیں ہوگا میں آپ کے ساتھ ہوں ؟؟؟؟ پلیز کال اٹھیں اک بار ۔۔۔یہی کچھ جاری تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ابو دروازے پر تھے شفق دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولا تو ابو کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ امی نے ان کو سب کچھ بتا دیا ہے۔"اب ابو کی بات تو تب سنو جب ندیم سے دھیان ادھر ادھر ہو'"۔انھوں نے پوچھا جو تمہاری ماں نے کہا ہے کیا یہ سچ ہے؟؟؟؟

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا بغیر نافع نقصان سوچے؟؟

اچھا ٹھیک ہے جو ہوا سو ہوا لیکن تم شادی میری مرضی سے کرو گی۔امی کو دھکا دے کر انھوں نے کہا اب اس پر نظر رکھو۔اس لڑکے سے تو بالکل نہیں شادی ہوگی اس کی.

اب وہ چلے گئے تو امی کمرے میں آ گئی آکر دلاسہ دیا آخر ماں تھی۔۔۔۔۔ اس نے سوچ کوئی غلط قدم نہ اٹھ لے۔انھوں نے کہا کہ تمہارے ابو ابھی غصے میں ہیں کچھ نہیں ہو گا ایسا تم بے فکر رہو۔لیکن مجھے ابو کا پتہ تھا کہ جو وہ کہہ دے وہ کر کے رہتے ہیں 

ابھی میری ہر دو صورت یہ کوشیش تھی کہ امی باہر جائیں تو میں اس کو مسیج کروں۔۔۔۔۔امی بھی شاید میرے ارادوں کو بھانپ گئی تھی،انھوں نے نرم لہجے میں کہا اچھا میں جا رہی ہوں باہر کچن میں شام کا وقت تھا انھوں نے کہا کہ میں کھانا تیار کر کے آتی ہوں اگر تمہاری طبعیت ذرہ بحال ہو تو آجانا کچن میں؟؟؟

میں نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ اٹھ کر چلی گئی۔

اب پھر سے ندیم کو میسج شروع کر دیے،وہ ابو آ گئے تھے؟

انھوں نے پوچھا تو میں نے سب بتا دیا؟؟

پلیز یار کچھ تو بولو،

میری جان لینی ہے کیا؟؟

ندیم خدا کے لیے میسج کا جواب ہی دے دو میری جان نکلی جا رہی ہے۔

میرے مسلسل مسیج کے باوجود اس نے کچھ جواب نہ دیا۔۔۔۔۔۔۔اب اذیت مزید بڑھتی جارہی تھی اس نے کچھ کر ناں لیا ہو اپنے ساتھ۔۔۔۔یہ خیال بار بار میرے دماغ میں گردش کر رہا تھا۔

کہ اس کی کال آگئی اب اس کے بولنے کے انداز سے لگ رہا تھے کہ دوکان سے کمرہ میں آگیا ہے۔اس نے بات ہی یہاں سے شروع کی

آگے کا کیا ارادہ ہے،؟؟؟

میں بالکل حیرت زدہ کیا مطلب۔۔۔۔۔کیا ارادہ ہے کیا کہہ رہے ہو تم مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا،

میرے کہنے کا مطلب تم اچھی طرح سمجھ گئی ہو لیکن اگر پھر بھی میرے منہ سے سنا ہے تو سنوں۔۔۔۔ابھی تمہارے پاس دو راستے ہیں بھاگ کر میرے ساتھ گاؤں چلو وہی شادی کر لے گئے۔۔؟؟؟یا پھر تمہارے ابو جس کے ساتھ کہہ رہے ہیں اس سے شادی کر لو۔۔۔

فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے؟؟؟

 میں تم کو زبردستی کچھ نہیں کہہ رہا۔؟؟؟

تم کیا سمجھتے ہو میں تمہارے بغیر جی لوں گئی۔میں تمہارے ساتھ ہی چلوں گئی بس بتا دینا کب چلنا ہے۔

میں اک بار پھر کہہ رہا ہوں اب کی بار وہ سنجیدہ لہجہ میں بول رہا تھا۔۔۔۔کوئی زبردستی نہیں ہے میری طرف سے تم جیسا چاہوں ویسا کرنے کا حق رکھتی ہو اور ویسے بھی محبت کسی پر قربان ہو جانے کا نام ہے،انا پرستی یا خود غرضی محبت میں کہاں چلتی ہے۔یہ اپنی پیاری چیز کو دوسرے لوگوں کو سونپ دینے کا نام ہے،خیر تم سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔

کیونکہ کے پا لینا ہی محبت نہیں ہوتا۔۔۔۔محبت تو فقط محبوب کی خوشی میں خوش ہونے کا نام ہے۔لیکن اگر پھر بھی آپ میرے ساتھ آنا چاہوں تو اس سے بڑھ کر میرے لیے کیا چیز خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔

اب میرے اندر کا سنجیدہ شحص بھی بول اٹھ،میرے اندر تھا کتنا سنجیدہ ہو سکتا تھا خیر 

ندیم آپ کے ہاں تو مجھ پتہ نہیں لیکن اک عورت کے ہاں ہمیشہ جذبات کی فروانی رہتی ہے۔جس کا نتائج ہمیشہ خراب ہوتے ہیں،لیکن جذبات میں انجام کی پرواہ کون کرتا ہے؟؟

اک مرد کے لیے شاید یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی چیز کو دوسرے کے ہاں دیکھ کر خوش ہو سکے لیکن عورت کی فطرت میں یہ شامل نہیں ہوتا۔وہ خود کٹ مر تو سکتی ہے۔۔۔لیکن اپنی پسندیدہ شے کو دوسرے کے ہاں کبھی قبول نہیں کر سکتی۔عورت کے لیے اپنے مزاج اپنے تخیلات کو درست سمت میں رکھنے کے لیے محبوب کی ہنسی مذاق کی وہ چند اک باتیں ہی ہوتی ہیں،جن کے یاد آنے سے وہ کبھی خوش اور کبھی رو بھی سکتی ہے۔

میری باتیں شاید آپ کو۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments