Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Jaan By Ana Shah Episode 5 - Daily Novels

ناول جان  

ناول نگار اناشاھ

قسط نمبر 5



  نفیس شاہ لارک اپنے آفس میں مصروف تھے جب انہیں موبائل پر کال آنے لگی کال گاؤں سے تھی وہ حیران تھے کیونکہ وہ اکثر صبح کو یا رات کے ٹائم بات کرلیتے تھے لیکن اس ٹائم کیوں کہ ان کے آفس ٹائم ھوتے تھے تو اس ٹائم کال کم ہی آتی تھی اور اسی بات پر پریشان ہوگئے تھے کہ سب خیریت ہو ۔انہوں نے جلدی سے کال اٹھائی۔"ادا سائیں کیسے ہو !"

"جی بابا سائیں !میں ٹھیک آپ سنائیں میں تو ٹھیک ہوں لیکن تمہاری اماں !!!اماں کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور وہ تمہیں یاد کر رہی ہیں ۔تم ٹائم نکال کر اپنی فیملی کے ساتھ آ جاؤ اور ہمیں مل جاؤ ایک دو اور بھی ضروری باتیں کرنی ہے ""

"۔جی بابا سائیں میں ضرور ایک دو دن میں آنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔"""

"اور تمہارا کام کیسا جا رہا ہے کل دامیر بھی آیا ہوا تھا آج ہی گیا ہے  ۔۔۔باقی جب تم آؤ گے تو پھر بات ہو گی اپنا خیال رکھنا اس کے ساتھ ہی کال بند ہو گئ۔ ۔۔۔۔۔۔لیکن نفیس شاہ لارک کے لیے سوچوں کے نئے در وا کر گئی کیونکہ بابا جانی کہ لہجے میں کچھ خاص بات تھی ایسا لگتا تھا کہ کوئی ضروری بات کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اماں سائیں کی طرف سے بھی فکر ہوئی تھی کیونکہ اچانک ہی ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی اور وہ ارادہ رکھتے تھے وہ ایک دو دن میں ضرور گاؤں جائیں گے ..........

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸 


آج خلاف معمول امروزیا کے سوا گھر میں کوئی نہیں تھا بابا جان صبح سے آفس میں تھے اور وہ غروب آفتاب کے بعد واپس آتے تھے ان کے آنے سے گھر میں رونق ہو جاتی امی کو فکر ہوتی کہ آپ جلد از جلد کھانا لگا دیا جائےامی کی فکرتب سےسٹارٹ ھوئ جب سے امروزیہ کے ساتھ وہ واقعہ پیش آیا تھا اور وہ کافی حد تک بدل گئی تھیں جو ہمیشہ گھر سے زیادہ اینجیوز کو توجہ دیتی تھیں اور گھر کے کاموں پر اتنی توجہ نہیں دیتی تھئں اب گھر میں ہی رہتیں اور گھر کے کاموں پر زیادہ توجہ دیتیں اور امروزیہ کو بھی ٹائم دے رھی تھیں  ایم روزیا اپنی ماں کی تبدیلی سے بہت خوش تھی  ایسے میں وہ مختلف ہدایت دے دے کر اپنے آپ کو ہلکان کرتی رہتی اور باقی نوکروں کو بھی پریشان کر دیا کرتی تھیں اور جب انہیں لگتا کہ تسلی بخش کام نہیں ہوا تو بڑبڑاتۓ ہوئے خود ان کے ساتھ جاتی ایسے میں ان کی اس کیفیت سے سب ہی محظوظ ہوتے مگر وہ ہر کسی سے بے نیاز اپنے کام میں مشغول رہتیںك اور بالآخر اس کام کو کر لینے کے بعد ہی انہیں سکون ملتا ۔۔۔

آج دوپہر سے وہ اپنی ایک فرینڈ کی طرف گئی ہوئی تھیں ان کے ابو کی خیریت معلوم کرنے جو کہ کافی عرصے سے بیمار تھے اس وقت گھر میں سناٹوں کا راج تھا اس وقت بڑی شدت سے پچھتاوا ہو رہا تھا کہ ناحق اس نے آج یونیورسٹی سے چھٹی کر لی چلی جاتی تو کم از کم اس وقت اس پر وہ عجیب سی کیفیت تو نہ طاری ہوتی اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وقت کتنا سرک گیا ۔ُ۔ ۔۔۔۔اسے سوچوں میں غلطاں ہونے کے باعث وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو سکا اب جو اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا تو حیران رہ گئی کتنا وقت گزر گیا لان میں بیٹھے غروب آفتاب کا وقت ہوا چاہتا تھا سورج بڑی تیزی سے پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ رہا تھا اور دھیرے دھیرے تاریکی پھیلا رہا تھا اسی وقت چڑیوں کاغول بڑی تیزی سے شور مچاتا ہوا اس کے سر پر سے گزرا وہ سب بھی صبح کے اپنے اپنے آشیانوں سے رزق کی تلاش میں نکلے اس وقت تھکے ماندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔

اس نے اندر جانے کے لیے قدم بڑھا دئیے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اسے اپنے موبائل کی مخصوص ٹون سنائی دی موبائل کمرے میں ہی پڑا تھا سو وہ تیزی سے چلتے ہوئے اندر کمرے کی طرف چلی گئی اس کے ذہن میں انیلا کا خیال آیا تھا جو کہ شاید آج اس کے یونی نہ آنے کی وجہ جاننا چاہتی تھی اس نے سرعت سے سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھایا ایک انجان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمبر اسکر ین پر جگمگا رہا تھا۔۔۔۔

اس نے حیران ہوتے ہوئے یس کا بٹن پش کیا اور موبائل کان کے ساتھ لگا کر شائستگی سے بولی ۔۔۔۔

"ہیلو "!

"ہیلو "!۔۔۔۔۔جواب ندارد ۔۔۔۔

"ہیلو "!۔۔۔۔۔۔اب کے بار وہ جھنجھلا ۓ ہوئے انداز میں بولی۔۔۔۔۔۔۔

مگرپھر بھی  جواب ندارد ۔۔۔۔۔

پھر کچھ دیر تک وہ خاموش رہی وہ سوچ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔ جو کوئی بھی ہو گا بول پڑے گا مگر کافی دیر تک اسےصرف سانسوں کی آواز سنائی دیتی رہی بالآخر تنگ آ کر اس نے غصے سے کال ڈسکنیکٹ کر دی ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ھی موبائل آف کر دیا کہ مباداپھرنا کال کر کردے ۔۔۔۔۔۔

اسے حیرانی اس کال پر اس لیے تھی کہ اس کا نمبر نیا تھا اور اس کی چند سہیلیاں اور گھر والوں کے علاوہ اس کا نمبر کسی کے پاس نہیں تھا پھر اسے خیال آیا ہو سکتا ہے اس کی کوئی دوست ا سے تنگ کر رہی ہو اس خیال کے آتے ہی وہ پرسکون ہو کر سونے کی تیاری کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮


🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼


گیٹ پر ھارن بجنے سے اس کی آنکھ کھل گئی اس نے کروٹ بدلی مگر نیند غاءب ہو چکی تھی اٹھ کر کھڑکی سے جھانکا تو گاڑی اندر آ رہی تھی اور چوکیدار گیٹ بند کر رہا تھا اس نے گہرا سانس لیابابا کی گاڑی تھی اور بابا آفس سے آچکے تھے  وہ واش روم میں چلی گئی تھوڑی دیر میں وہ فریش ہو کر کچن میں پہنچ گئی ۔۔۔ُ۔ ۔

کچن میں کوک ڈنر تیار کر رہا تھا ۔۔۔۔اسے ہدایات دے کر وہ دوبارہ لاونج میں واپس آئی۔۔۔بابا آج میں سارا دن بورہوتی رھی ۔۔۔۔۔"آپ بھی ۔۔۔۔۔

وہ نان سٹاپ شروع ہو چکی تھی لیکن بابا کے ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھ کر اس کی بولتی بند ہوگئی ۔۔۔۔🐌🐌🐌🐌

وہ کوئی اور نہیں دامیر  شاہ تھا۔ ۔۔۔😒😒😒😒🤒

اس بندے کو دیکھ کر پتہ نہیں اسے کیوں چڑ چڑھتی تھی۔ ۔۔۔لیکن اب سامنے آ چکی تھی تو سلام بھی کرنا تھا ۔۔۔۔

السلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ !!!

بھائی کہنے پر دامیرشاہ اندر ہی اندر  جل کر رہ گیا تھا ۔۔۔پر سلام کا جواب دینا ضروری تھا۔ ۔۔۔😸

"میں ٹھیک ھوں تم سناؤ کیسی ہو "؟؟؟؟

اصل میں اس بندے کی آنکھوں سے کنفیوز ہو جاتی تھی جو اب اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ ۔۔۔

پاپا پھر سے اس سے گفتگو میں مصروف ہوگئے تھے اور وہ خاموشی سے بیٹھی انگلیاں مروڑ رہی تھی  ۔۔۔۔اور دور بیٹھا دامیر شاہ جو اس کی ایک ایک حرکت پرنظر رکھےھوۓتھا  اور اس کے دل سے یہ آواز آرہی تھی ۔۔۔۔دامیر شاھ کو خلیل صدیقی کی یہ نظم یاد آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کون بتائے۔کیا ہے حقیقت اور بنا افسانہ کیا 


دل کی بستی کیا بستی ہے بس نہ کیا لٹ جانا کیا 


آج تو جوں توں کٹ جائے گا کل کی سوچو کیا ہوگا 


جو گزری سو گزری چکی اتراناکیا پچھتانا کیا


امروذیاا

 اس کی مسلسل نظروں کی تپش سے کنفیوز ہو رہی تھی وھ اٹھ کر جانے لگی  اور پاپا نے چونک کر اسے دیکھا تو اس نے کہا کہ میں ڈنر دیکھ لو ں😸😸😸😸

شاہ کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا ۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments