Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Mera Ishq To Mera Khuda Hai By Noor E Saba Episode 4 - Monthly Novels

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

"میرا عشق تو میرا خدا ہے"

ازقلم، رائیٹر؛ نور الصباح (جونیجو کوندھر)

شھر: ٹنڈو جام

ماہانہ وار ایپی سوڈ،

قسط نمبر:4

بارڈد پہ مقابلہ زور وشور سے جاری تھا دشمن اپنی فتح حاصل کرنے کے لیئے بہت سارے بے گناہ لوگوں کی جان کی بازی لگا چکا تھا غریب لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا،

امیر زادوں کی نظر میں بھلا غریبوں کی جان کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے؟ وہ تو بس غریبوں کی جان داؤ پہ لگانا جانتے ہیں اور انہیں کچھ پیسوں کے بدلے میں ان کی جان تک گنوا دیتے ہیں اور غریبوں کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اپنے بابا کے انتظار میں دروازے کو تکتے تکتے تھک جاتے ہیں اور ماں سے سوال کرتے ہیں کہ

اماں بابا کس وقت آئینگے؟

اماں بابا ہمارے لئے کیا خریدنے گئے ہیں؟

اماں بابا کو بولیں نہ کے بہت بوکھ لگی ہے جلدی آئیں،

اور ماں بچاری جھوٹے دلاسے دے دے کر معصوم بچوں کو بھوک پہ سلا دیتی ہے

آہ پھر ایسے گزر جاتی ہیں غریبوں کی زندگیاں،

امیر شاہ بارڈر کے نزدیک پہنچ چکے تھے شاہ نے فوراً اپنا حفاظتی لباس پہنا اور چہرے کو ماسک سے چھپا لیا گاڑی کو لاک کر کے اندر کی جانب رخ کیا،

شاہ نے جیسے ہی اندر کی جانب قدم بڑھائے تو سامنے کا منظر دیکھ کر شاہ ساکت ہوگیا، 

دسمبر کی ٹھنڈک اور تیز ٹھنڈی ہواؤں کا راج تھا رات کا درمیانہ پہر تھا بارڈد کے میدان میں شاہ کے سامنے بہت سے لوگوں کی لاشیں زمین بوس ہوئی پڑی تھی،

شاہ نے قریب جاکر دیکھا خون میں لت پت بے گناہ لوگ بلاوجہ اپنی جان کی قربانی دے چکے تھے اور ان کے چہروں پہ سکون چھا گیا تھا کسی کسی کا چہرہ تو مسکراہٹ سے کھلا ہوا تھا اور ایک عجیب سی مسکان چھا گئی تھی شاید انہیں شھادت کی موت نصیب ہوئی تھی یا پھر اس مردار زندگی سے چھٹکارا پا چکے تھے اور روانہ ہوئے تھے اپنی منزل کی طرف اور اپنے خالق حقیقی اپنے محبوب سے ملاقات کی خوشی تھی،

شاہ نے ہر ایک اس انسان کو بہت قریب سے بغور دیکھا اور کیمرے میں ان کے چہرے ریکارڈ ہوتے جارہے تھے، شاہ اب آگے کی جانب بڑھتا جارہا تھا جیسے جیسے بڑھتا جارہا تھا ویسے ویسے اس کے وجود میں دکھ، صدما اور غضہ سرائیت کر رہا تھا ایسا نہیں تھا کہ اس نے اتنی لاشیں پہلی بار دیکھی تھی بلکہ انگلینڈ میں اکثر ہی ایسا ہوتا تھا اور وہ ڈٹ کر دشمن سے مقابلہ کرتا اور فتح ہمیشہ حق اور سچائی کی ہی ہوتی اور شاہ کی ٹیم فتح حاصل کر لیتی،

شاہ کو ان غریبوں کی خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا تھا اور غصہ سے اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ ہوگئ تھی شاہ کے قدم صدمے سے بھاری پڑنے لگے تھے اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ دشمن کے سارے علاقے کو تباہ و برباد کر ڈالے اس کے وجود میں کچھ چھن سے ٹوٹا تھا یا شاید اپنے ملک کے غریب لوگوں کو اس حالت میں دیکھ کر بہت کچھ ٹوٹا تھا اپنے ملک عزیز سے اسے ایک الگ قسم کا لگاؤ تھا اور وہاں کے رہنے والے غریب لوگ بھی اسے بہت عزیز تھے،

دور کہیں سے روشنی کی کرن نظر آرہی تھی اور شاہ جیسے ہی اس کے پاس بڑھتا جارہا تھا ویسے ویسے اسے وہاں سے شور کی ہنسی کی قہقہوں کی آوازیں برآمد ہورہی تھی ہاں اسے یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ دشمن اپنی فتح کی خوشی میں جشن منا رہے ہیں، شاہ کو آج بدلا چکتا کرنا تھا مگر وہ اکیلا تھا اور دشمن کے ساتھ پوری فوج،

اس نے ایک نگاہ آسمان کے جانب بڑھائی جہاں چاند کی خوبصورت مدہم سی روشنی اس کے چہرے کے گرد پھیل چکی تھی اور ستارے بھی اپنی آب و تاب سے اللہ کے حکم سے چمک رہے تھے اس نے درد بھری نگاہوں سے آسمان کو التجائی نظروں سے دیکھا اور کہا کہ اے میرے اللّٰہ میں جانتا ہوں کہ میں بہت کمزور تیرا ایک گہنگار بندہ ہوں مجھ میں ذرا سی بھی طاقت نہیں مگر میرے مولا اگر تو چاہے تو میں اس پوری فوج پہ غالب آسکتا ہوں میرے مالک اس وقت میں بہت تکلیف میں مبتلا ہوں پس تو میری مدد فرما" الھم انی مغلوب فانتصر"

شاہ نے یہ دعا پڑھ کر اپنے پروردگار سے باتیں کی تو سکون کی ایک لہر اس کے اندر سما گئی بے، شک اللہ سے باتیں کرنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے اپنے پروردگار کو تنہائی میں بیٹھ کر اپنی داستاں سنانے میں جو سکون محسوس ہوتا ہے وہ کہیں بھی نہیں ملتا،

شاہ اپنی گن نکال کر آگے کی جانب روانہ ہوا، تیز آواز میں میوزک اسپیکر پہ چل رہے تھے شراب کی بوتلیں کھلی ہوئی تھی لڑکیاں ناچنے میں مشغول تھیں اور دشمن کی ساری ٹیم عیاشی کرنے میں مگن تھی شراب کے نشے میں ڈوبے ہوئے انسان جو کہ حیوانات سے بھی زیادہ برتر لگ رہے تھے اور لڑکیاں شاہ کو ایسی حالت میں لڑکیوں کر دیکھ کر اتنی نفرت ہوئی کہ اس کا دل چاہا کہ دشمنوں سے پہلے ان سب کو شوٹ کر دے،

 ہاں ایسی لڑکیوں کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے کہ جو اپنے ماں باپ کو دھوکا دے کر اپنی نفسانی خواہشات اور پیسوں کی لالچ میں آدھی آدھی رات کو اپنے گھروں سے چھپ چھپ کر نکلتی ہیں اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر کہ غیر محرم مردوں سے ملتی ہیں اور ان سے تعلق بنائے رکھتی ہیں پھر ایسی لڑکیوں کا نہ تو دنیا میں اچھا انجام ہوتا ہے اور نہ ہی آخرت میں،

شاہ نے روالر چالو کیا پیڑ کے پیچھے اندھیرے میں چھپ کر پہلے سب سے بڑے دشمنوں کے سردار کو شوٹ کیا گولی سیدھا اس کے سینے میں جا لگی اور وہ زور سے چیخ کر زمین بوس ہوگیا اس کی چینخ کی آواز پہ باقی سب نے بھی ہوش سنبھالا اور اپنی اپنی پسٹل اٹھا کر مقابلہ کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر سب شراب کو منہ لگا چکے تھے یعنی حرام چیز کو منہ لگایا ہوا تھا تو ان کی ساری فوج بھی اکیلے شاہ پہ جان لیوا وار نہ کر پائی اور شاہ نے ایک ایک کر کے سب کافروں کو ختم کردیا اور ایک اکیلا شاہ اللہ کے حکم سے دشمنوں کی پوری ٹیم پہ غالب آچکا تھا لیکن آخر میں ایک بچ گیا تھا اس کے سینے پہ ٹانگ رکھ کر شاہ اسے بھی شوٹ کرنے ہی والا تھا کہ اس نے ہاتھ جوڑ کر منت کی کہ اللہ کے واسطے مجھے چھوڑ دیں میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہیں میرے بغیر بوکھے مر جائیں گے، شاہ کے ہاتھ سے گولی چلتے چلتے رکی اور اسے کالر سے پکڑ کر کہا کہ اگر بچوں کا اتنا ہی خیال ہے تو یہاں دشمنوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ مقابل نے جواب دیا کہ ان کافروں کی ٹیم نے ہمارے سب مسلمانوں کو ختم کردیا ہم بہت کم لوگ تھے اور ان کی پوری ٹیم ہماری ٹیم میں لڑتے لڑتے بد قسمتی سے بس میں ایک ہی بچ گیا تھا تو میں نے دشمنوں سے کہا کہ اب میں تمھاری ٹیم کا حصہ بننا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے معصوم بچوں کی فکر کھائے جارہی تھی، شاہ نے اسے دور دھکا دے کر گرایا اور کہا کہ کیا تمھیں اللہ کی ذات پہ بھروسہ نہ تھا؟ جو تم دشمن کے آگے کمزور پڑ گئے اور اپنی ٹیم تک بدل ڈالی، مقابل شرم سے سر جھکا کر بہت رونے لگا اور اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت سجدہ ریز ہوکر رو رو کر معافی طلب کرنے لگا، شاہ اسے وہیں چھوڑ کر آگے کی جانب بڑھ گیا اور گاڑی میں جا کر اپنا حفاظتی لباس اور ماسک وغیرہ اتارنے لگا کیمرہ اور روالر کو بیگ میں رکھ کر محفوظ جگہ پہ رکھ دیا،

دسمبر کی راتیں بہت بڑی اور تویل سی صبح فجر کا وقت ہوگیا گاڑی چلاتے ہوئے اس کے کانوں میں اذان کے کلمات کی آواز سنائی دی اور اس نے گاڑی کا رخ فورا مسجد کی جانب کیا، وہ نماز کا پابند نہیں تھا مگر آج اس کا دل بے قرار تھا اپنے رب سے ملاقات کے لئے آخرکار اس  کے رب نے ہی تو دشمنوں کو کمزور کر دیا اور شاہ کو ہمت دی کہ دشمنوں سے ڈٹ کے مقابلہ کرے دشمنوں کی ساری ٹیم تھی اور وہ اکیلا کمزور انسان مگر حق پہ تھا سچ کے لئے لڑنا چاہ رہا تھا اور اللہ نے اسے دشمنوں پہ غالب کردیا اگر اس کے رب کے حکم سے آج وہ دشمنوں کو جان سے  ختم نا کرتا تو یہی دشمن اپنی طاقت اور پیسے کے بلبوتے پر پتا نہیں کتنے بے گناہ لوگوں کی جان داؤ پہ لگاتے،

شاہ مسجد میں داخل ہوا اور وضو کرنے کی غرض سے وضو خانہ میں داخل ہوا اور وضو کرنے لگا دسمبر کے موسم میں صبح سحر کے وقت پانی بھی تیز ڈھنڈا تھا مگر شاہ کو آج وضو کا پانی بھی بے حد مزا دے رہا تھا اور وضو کرتے وقت اسے ایک قسم کا لطف محسوس ہورہا تھا اور سکون مل رہا تھا،

""محبت جب "خدا"سے ہوجائے،

تو وضو کا پانی بھی ٹھنڈا نہیں لگتا""

وضو کر کے شاہ نے نماز ادا کرنے کی نیت باندھ کر قیام میں سیدھا اپنے رب العالمین کی بارگاہ الٰہی میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا، قیام کے بعد رکوع میں حاضری دی، رکوع کے بعد سجدے میں گر گیا آج اپنے رب کے سامنے سجدہ کی حالت میں گرے رہنے میں اسے بےحد مزہ آرہا تھا اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ سجدے سے اٹھے ہی نہ اسے سجدے میں ایسا لگ رہا تھا کہ کیسے اس کا محبوب اس کا رب العالمین اس کا درد کا ساتھی اسے پیار سے نواز رہا ہے اور سجدے کی مٹھاس اس کے جسم میں چاشنی کی طرح سما رہی تھی،

کچھ ہی دیر میں اس نے نماز فجر ادا کر لی اور پھر دعا کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھائے آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے مگر اس کے ہاتھ کپکپاں رہے تھے اس کی زبان سے الفاظ ادا نہ ہو پارہے تھے اس کی آنکھوں میں نمی سی چھا گئی تھی اس کے ہونٹوں پہ خاموشی بے شمار تھی بس یونہی کچھ پل اس کیفیت کے نظر کرتے امیر شاہ  نے بغیر کچھ مانگے دعا والے ہاتھ اپنے چہرے کے گرد آمین کی صورت میں پھیر دیئے اور اٹھ کر مسجد سے باہر کا رخ کیا،

باہر نکلتے وقت اسے پیچھے سے کسی اجنبی کی آواز سنائی دی اور وہ شاید کوئی اسے ہی پکار رہا تھا اس نے پیچھے کی جانب رخ موڑا تو وہاں مسجد کے پیش امام صاحب کھڑے تھے امام صاحب نے اسے مخاطب کرتے ہوئے بات کی بیٹا آج پہلی بار مسجد آئے ہو؟ بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر بہت پیارے ہو آپ ماشاءاللہ اللہ پاک تمھیں نظر بد سے بچائے، شاہ نے مسکراتے ہوئے امام صاحب کو آمین کہا بہت شکریہ آپ کا میں انگلینڈ سے کل ہی آیا ہوں جب ہی شاید آپ نے مجھے پہلی بار دیکھا ہے، امام صاحب نے شاہ سے اور بھی دین کی کچھ باتیں کی اور شاہ نے بغور انہیں اپنے ذہن میں اتارا اور الوداعی کلمات کہہ کر امام صاحب سے اجازت لی اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا اور گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا،

صبح کے چھہ بج چکے تھے اور شاہ ساری رات گھر سے باہر رہا، نایاب بیگم کو تو ساری رات نیند ہی نہیں آئی اور اس سے بھی برا حال ان کی لاڈلی انمول کا تھا جو کہ ساری رات بس امیر شاہ کی زندگی تباہ کرنے کے منصوبے بناتی رہی اور کب نیند کی وادی میں چلی گئی پتہ ہی نہ چلا،

نایاب بیگم نماز کے لئے اٹھ گئی تھیں انمول کو روز کی بنا پہ اٹھاتی تھیں مگر وہ کبھی اٹھتی تھی نماز ادا کرتی تھی تو کبھی شیطان کی چال میں آکر سو جایا کرتی تھی آج بھی وہ نماز کے لئے نہیں اٹھی تھی، نایاب بیگم کو پتہ چل گیا تھا کہ امیر شاہ ابھی ابھی تک گھر واپس نہیں آئے وہ ساری رات وقفے وقفے سے اٹھ کر اس کے کمرے میں جاکر دیکھتی رہتیں، نایاب بیگم قرآن پاک کی تلاوت میں مگن تھیں تو گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی اور پیچھے کی طرف کا دروازہ کھلنے کی آواز ہوئی، نایاب بیگم نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور تلاوت قرآن پاک کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے لگی،

شاہ کمرے میں داخل ہوا تھکن سے اس کا بہت برا حال تھا بیڈ پہ اوندھہ منہ ہی گر گیا وہیں نیند نے اسے آن گھیرا اور میٹھی نیند سوگیا، ہاں ایسا ہی ہوتا ہے جب بھی اللہ تعالیٰ کی رضا خاطر ہم کوئی بھی کام یا دین کا کام کرتے ہیں تو تو اللہ تعالیٰ ہمیں سکون جیسی عظیم دولت سے نواز دیتے ہیں بھلے ہماری زندگیوں میں ہم سکون کو کچھ نہیں سمجھتے یعنی اچھے کھانے پینے ، اور اچھے گھر اور دنیاوی چیزوں کو ہی ہم زیادہ ترجیح دیتے ہیں مگر  کبھی کبھی  کروڑں مال کے مالک بھی سکون جیسی نعمت کے لئے ترس رہیے ہوتے ہیں اور نیند کا پھیکا  مزہ دوائیوں کے زیرِ اثر لے رہے ہوتے ہیں مگر اصل سکون تو وہ ہے جو فقط اللہ کی عطا ہوتی ہے اور ایسا سکون اللہ تعالیٰ کسی کسی کو نوازتے ہیں،

نایاب بیگم قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد ناشتہ  بنانے میں مصروف ہوگئیں روز کے معمول کے مطابق صبح آٹھہ بجے انمول کالج جانے کے لئے تیار ہوکر دسترخوان پہ آجاتی ہے مگر آج تو سوا آٹھہ بھی گزر چکے تھے مگر انمول کا کوئی پتہ نہیں، 

نایاب بیگم نے انمول کے کمرے کی جانب رخ کیا اور دیکھا کے وہ محترمہ ابھی تک نیند کی وادی میں مزے لوٹ رہی ہیں وارڈ لیمپ کی مدہم سی روشنی اس کے چہرے کو چھو رہی تھی نایاب بیگم ماں تھیں وہ اس کا چہرہ دیکھ کر ہی جان گئی تھیں کہ انمول کس تکلیف سے گزری ہے اور اس کے معصوم سے چہرے پہ آنسؤں کے نشان واضح تھے نایاب بیگم کا دل کیا کہ اسے بہت پیار دے اور اپنے دل کے ساری باتیں آج اس سے بیان کر ڈالے مگر دل اور زبان دونوں کا ساتھ ہو تو انسان اپنی بات مکمل کر سکتا ہے دل تو بہت چاہ رہا تھا کہ کر ڈالے اس سے ساری باتیں سمجھائے اس پگلی جان کو کہ امیر شاہ کے دل میں اس کا کیا مقام ہے مگر زبان کا ساتھ دینے سے انکاری تھی نایاب بیگم دل کی باتیں بس دل ہی میں رکھ کر اس کے کمرے کا دروازہ بند کر باہر کی جانب بڑھ گئیں اور اپنے کاموں میں مہو مگن ہوگئیں،

صبح کے دس بج چکے تھے مگر ابھی تک نہ شاہ اٹھا تھا نیند سے اور نا ہی انمول نایاب بیگم کبھی شاہ کے دروازے کو تکتی تو کبھی انمول کے دروازے کو مگر دونوں ہی بند نظر آرہے ہوتے نایاب بیگم تیسری بار ناشتہ گرم کر کے دسترخوان پر لگا چکی تھیں اور اب ارادہ دونوں کو جگانے کا تھا انھوں نے ناشتے میں بھی شاہ کی پسند کی چیزیں بنائی تھیں اور اللہ سے امید رکھتی تھیں کہ آج امیر شاہ خوش ہونگے اور ان کا دن اچھا گزرے گا اور انمول سے بھی رات والی بات سے آج انہیں اچھی امیدیں تھیں شاید انہوں نے ان دونوں کے لئے بہت دعائیں کی تھیں تو اسی وجہ سے آج ان کا دل مطمئن سا تھا، کیونکہ دعا کرنے کے بعد اللہ تعالٰی بندے کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتے ہیں،

شاہ کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی شاہ کا عکس نایاب بیگم نے آنکھوں میں سمویا اور وہیں انمول کے کمرے کا بھی دروازہ کھلا اور انمول بھی اپنے کمرے سے نکل کر دسترخواں کی جانب بڑھ گئی،

نایاب بیگم بیچ میں کھڑی تھیں ایک طرف امیر شاہ جس نے سفید رنگ کا کرتا زیب تن کیا ہوا تھا کندھوں پہ شال اوڑھے رکھی تھی اور آج اسکی نیزل نیلی آنکھوں میں خوشی کا رنگ نمایاں تھا، دوسری طرف انمول نے بھی سفید رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا بال گیلے ہونے کی وجہ سے کھلے چھوڑ دیئے تھے سر پہ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح سادگی میں مگر بہت پیاری لگ رہی تھی،

نایاب بیگم کبھی شاہ کو دیکھتی تو کبھی تو کبھی انمول کو دیکھتی، شاہ اور انمول کے لباس بلکل میچ ہو رہے تھے گویا کے ایک دوسرے سے پوچھ کہ پہنے ہوں مگر یہ محض ایک اتفاق تھا،

""ان کے دیدار کی خاطر

جان تک لٹا دیں گے ہم،

اے نور،،

وہ ایک بار کہیں تو سہی

کہ بڑی تمنا ہے تم سے ملنے کی""

شاہ کی نظریں انمول کے چہرے پہ ٹکی ہوئی تھی انمول سر جھکائے نظریں زمین میں ٹکائے ہوئے تھی اسے خود پہ کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہورہی تھی سب خاموشی سے اپنی جگہ پہ کھڑے تھے وقت گزرتا جارہا تھا نایاب بیگم نے بڑی ہمت کر کے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔۔___

جاری ہے،

Post a Comment

0 Comments