Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi By Waheed Sultan Episode 17 | Daily Novels

ناول:پیرزادی
مصنف:وحید سلطان
قسط 17
نور بنت نذیر اور امان علی جب ایک ساتھ ابدالی آستانہ میں داخل ہوئے تو ان دونوں کی آمد کی خبر پیر ابدالی کو دی گئی وہ شدید برہم ہو گیا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر صحن کی جانب جانے ہی والا تھا کہ اس کی بیوی فہمیدہ نے اس کا راستہ روک لیا۔ اس نے پیر ابدالی کو سمجھایا کہ ہر مسئلے کا حل غصہ اور طاقت کے ذریعے نہیں کیا جاتا۔ پیر ابدالی رک گیا اور اس نے فہمیدہ کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ فہمیدہ نے پیر ابدالی کو بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسا مہرہ ہے جسے استمعال کرنے پر نور اور امان علی ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائیں گے۔ فہمیدہ نے مزید کہا کہ اب پیر ابدالی کو نور بنت نذیر اور امان علی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
پیر ابدالی نے اپنی بیوی کو ایک بار پھر سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو فہمیدہ نے اس کی سوالیہ نگاہوں کا جواب دیتے ہوئے فارس کا نام بول دیا۔ فہمیدہ کے منہ سے فارس کا نام سن کر پیر ابدالی حیرت زدہ ہو گیا اور فہمیدہ کو متحیر نگاہوں سے دیکھنے لگا تھا۔
۔"کیا فارس تمہارے پاس ہے؟"پیر ابدالی نے استفسار کیا تو فہمیدہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
۔"ہاں ، جس دن آپ نے فارس کو آزاد چھوڑا تھا اور وہ فرار ہو گیا تھا تو اسی دن گلفام کو کہہ کر فارس کو دوبارہ پکڑ لیا تھا اور نور کو برباد کرنے کے لیے میں نے تب سے فارس کو قفس میں بند کر رکھا تھا۔"فہمیدہ نے کہا تو پیر ابدالی کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔
☆☆☆☆
نور بنت نذیر پچھلے تین گھنٹوں سے بند کمرے میں اپنے شوہر امان علی کے ساتھ محبت بھری باتوں میں مصروف تھی اور جب امان علی گہری نیند سو گیا تو نور چپکے سے اپنے کمرے سے باہر آئی اور اس کمرے میں چلی گئی جہاں فیروزہ سو رہا تھی۔ نور اس کی چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر زور زور سے فرش پر پاؤں پٹخنے لگی تھی۔ پاؤں پٹخنے کی آہٹ سن کر فیروزہ جلد ہی نیند سے بیدار ہو گئی۔ نور بنت نذیر کو اپنے کمرے میں دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی۔ نور بنت نذیر نے سرگوشیانہ انداز میں فیروزہ کو بتایا کہ وہ اس سے بہت ضروری بات کرنے کے لیے آئی ہے۔ نور کی بات سن کر فیروزہ نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
۔"جو بات میں تمہیں بتانے والی ہوں اس کی تصدیق تم مشال سیما اور گلفام مغل سے کر سکتی ہو بشرطیکہ تمہیں میری بات پر یقین نہ آئے۔"نور بنت نذیر نے سرگوشیانہ انداز میں کہا تو فیروزہ کے تجسس میں مزید اضافہ ہو گیا۔
۔"چچا جان تمہارے شوہر کے قاتل ہیں۔"نور بنت نذیر نے پیر ابدالی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا اور فیروزہ کو بتایا کہ پیر ابدالی اس کے شوہر کا قاتل ہے۔ نور کی بات سن کر فیروزہ اٹھ کر چارپائی کے وسط میں بیٹھ گئی اور نور کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔
۔"اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں آ رہا تو تم مشال سیما اور گلفام مغل سے اس بات کی تصدیق کر سکتی ہو۔"نور بنت نذیر نے کہا۔
۔"ہاں ، میں ضرور تصدیق کروں گی۔"فیروزہ متحیر لہجے میں بولی۔
۔"تم صبح ہوتے ہی لاہور چلی جانا۔"نور نے فیروزہ سے کہا اور پھر اس نے فیروزہ کو دو ہزار روپے دئیے۔ اس کے بعد اُس نے اُس فلیٹ کا پتہ کاغذ پر لکھ کر فیروزہ کو دیا جہاں مشال سیما اپنی دوست قطب کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ نور نے اُسے گلفام مغل کے بنگلے کا پتہ بھی دے دیا تھا۔
نیند اب فیروزہ کی آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی اور اب وہ صبح ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔
☆☆☆☆☆
صبح ہوتے ہی فیروزہ لاہور کے لیے روانہ ہو گئی۔ وہ اس فلیٹ میں پہنچ گئی جس کا پتہ نور بنت نذیر نے اُسے دیا تھا اور جہاں مشال سیما قطب کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ مشال سیما سے ملاقات کے بعد فیروزہ نے گلفام مغل سے اس بات کی تصدیق کرنا مناسب نہ سمجھا کہ پیر ابدالی ہی اُس کے شوہر کا قاتل ہے۔ مشال سیما نے فیروزہ کو بتا دیا تھا کہ گلفام مغل کے دوست شرافت شرفی نے خود اُسے یہ بات بتائی تھی کہ  مشال سیما کا باپ پیر ابدالی ہی فیروزہ کے شوہر کا قاتل ہے۔
فیروزہ لاہور سے اپنے شہر واپس جانے کے لیے بس میں سوار ہو چکی تھی اور اس کا ذہن ماضی کی یادوں میں الجھ چکا تھا۔
فیروزہ کو برسوں پہلے کا وہ منظر یاد آ گیا جب وہ میلوں کا سفر ٹانگے پر طے کر کے اپنے شوہر کے ہمراہ پیر ابدالی کے آستانے پر آئی تھی۔ وہ پیر ابدالی کے پاس آنا ہی نہیں چاہتی تھی مگر وہ اپنے شوہر کی ضد کے سامنے ہار ماننے کے بعد پیر ابدالی کے آستانے آنے پر مجبور تھی۔ اس کے شوہر کا خیال تھا کہ پیر ابدالی کی دعاؤں اور فیض کے باعث وہ دونوں صاحب اولاد ہو جائیں گے۔
فیروزہ کا شوہر پیر ابدالی کا پکا مرید تھا۔ وہ ہر کام کے لیے پہلے پیر ابدالی سے اجازت طلب کرتا پھر جب پیر ابدالی اجازت دیتا تب ہی وہ کام کرتا ورنہ نہیں۔
فیروزہ کے شوہر نے جب بے اولاد ہونے کا ذکر اپنےمرشد پیر ابدالی  سے کیا تو اُس نے کہا کہ فیروزہ پر جادو ہوا ہے۔
پھر فیروزہ کو وہ منظر بھی یاد آ گیا جب پیر ابدالی نے اسے غلیظ نگاہوں سے دیکھا۔
۔" ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔" پیر ابدالی نے فیروزہ سے کہا تو فیروزہ گھبرا گئی۔
۔" اری دیکھ کیا رہی ہے؟ تم پیر صاحب کی بیٹی جیسی ہو ، مرشد صاحب سے مت ڈرو ، بس حکم کی تعمیل کرو پیر و مرشد دم کریں گے بیٹھ جاؤ یہاں" فیروزہ کے شوہر نے سختی سے کہا تو فیروزہ ایک دم پیر ابدالی کے بلکل سامنے آکر بیٹھ گئی۔
۔"چہرہ دکھا اپنا ، جادو کی نوعیت معلوم کرنی ہے مجھے۔" پیر ابدالی نے کہا تو فیروزہ نے برقعے کا پلو اوپر کیا۔بس پلو ہٹانے کی دیر تھی۔ اس چاند سے چہرے کو دیکھ کر ابدالی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
لرزتی پلکیں ، گھنی ، اوپر کو مڑی ہوئی ، شرم و حیا سے جھکی ہوئی پلکیں ، اففّفف پلکوں کا یہ منظر ہے تو آنکھیں کیسی ہونگی۔
اور ہونٹ۔۔ گلاب کی پنکھڑی جیسے گلابی ہونٹ۔۔ پیر ابدالی حواس کھو بیٹھا تھا۔
۔"رکو ابھی آنکھوں کا نظارہ باقی ہے دل تھام لو۔" پیر ابدالی کے اندر سے آواز آئی۔
۔"آنکھیں دکھاؤ۔" پیر ابدالی نے کہا تو فیروزہ نے نگاہیں اٹھائیں تھیں۔ بس نظریں اٹھانے کی دیر تھی۔ پیر ابدالی چاروں شانے چت ہوگیا تھا۔
☆☆☆☆
پھر فیروزہ کو وہ منظر یاد آ گیا جب پیر ابدالی نے جادو کی کاٹ کے بہانے فیروزہ کو سات دنوں کے لیے اپنے آستانے پر رکنے کے لیے کہا تھا تو اس کا شوہر اسے سات دنوں کے لیے آستانے پر چھوڑنے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔ شوہر کے جانے کے بعد ایک خادمہ آئی اور فیروزہ کو ایک کمرے میں لے گئی۔ خادمہ نے اسے بتایا کہ پیر ابدالی دن کے وقت مردوں کو دم کرتے ہیں اور رات کے وقت عورتوں کو دم کرتے ہیں۔ خادمہ کی بات سن کر فیروزہ پریشان سی ہو گئی۔
شام کے وقت خادمہ نے کھانا پیش کیا تھا اور وہ کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد فیروزہ کا جسم سن ہو گیا تھا اور اس پر غنودگی طاری ہو گئی تھی اور پھر جب کمرے کا دروازہ کھول کر پیر ابدالی اندر آیا تھا تو اس نے بولنے کی کوشش کی مگر وہ نہ بول سکی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ پیر ابدالی اسے دم کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ اس پر قیامت ڈھانے آیا ہے۔ پیر ابدالی اسے اپنی حوس کا نشانہ بنانے کے بعد کمرے سے چلا گیا تھا جبکہ فیروزہ اب رو رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے شوہر کا نمبر فون پر ڈائل کر رہی تھی مگر اس کا شوہر کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا اور تب خادمہ دوبارہ کمرے میں آئی۔ خادمہ نے جو خبر اسے سنائی تھی وہ سن کر فیروزہ کو یوں لگا تھا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ وہ داڑھیں مار کر رو رہی تھی۔ اُسے بتایا گیا تھا کہ اُس کا شوہر جب اُسے پیر ابدالی کے آستانے پر چھوڑ کر گھر واپس جا رہا تھا تو راستے میں اس کا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا اور وہی پر فیروزہ کے شوہر کی موت ہو گئی تھی۔
☆☆☆☆
فیروزہ ابدالی آستانے پر واپس پہنچ چکی تھی۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ اس کے شوہر کی موت کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اسے پیر ابدالی نے قتل کروایا تھا اور پھر فیروزہ کو وہ دن بھی یاد آ گیا تھا جب فیروزہ کے شوہر کو لواحقین فیروزہ کو گھر واپس لے جانے کے لیے آئے تو پیر ابدالی نے یہ کہہ کر فیروزہ کو اپنے آستانے پر رکھ لیا کہ فیروزہ کا شوہر اسے آستانے کی خدمت کے لیے بطور امانت پیر ابدالی کے پاس چھوڑ کر گیا تھا اور فیروزہ کے سسرال والے اس قدر جاہل تھے کہ وہ پیر ابدالی کی باتوں سے فیروزہ کو آستانے پر چھوڑنے کے لیے قائل ہو گئے تھے ۔
☆☆☆☆
شام ہونے والی تھی جب فہمیدہ بیگم نور بنت نذیر اور امان علی کی زندگی برباد کرنے کے لیے فارس کو آستانے پر لے آئی تھی اُدھر دوسری جانب فیروزہ کلہاڑی لے کر پیر ابدالی کے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔
فہمیدہ فارس کو نور بنت نذیر کے کمرے کے سامنے لے گئی جبکہ اُدھر دوسری جانب فیروزہ نے پیر ابدالی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور اُس کے سر پر کلہاڑی کا وار کر دیا۔
فہمیدہ نے فارس کی زنجیر کھولی اور پھر اُسے نور کے کمرے کے دروازے پر چھوڑ کر چلی گئی۔ جب فہمیدہ پیر ابدالی کے کمرے میں پہنچی تب تک فیروزہ پیر ابدالی کے ٹکڑے کر چکی تھی۔ فہمیدہ بیگم کو دیکھتے ہی فیروزہ اُس پر حملہ آور ہوئی مگر فیروزہ کا وار خالی گیا کیونکہ فہمیدہ دائیں جانب ہٹ گئی تھی۔ فیروزہ نے دوبارہ کلہاڑی بلند کی تو فہمیدہ نے اُسے زوردار دھکا دیا۔ فیروزہ دیوار سے ٹکڑائی اور کلہاڑی اُس کے ہاتھ سے گر گئی۔ جب تک فیروزہ سنبھل پاتی تب تک فہمیدہ کلہاڑی اٹھا چکی تھی۔ فہمیدہ نے فیروزہ کے سر پر کلہاڑی کا وار کیا اور پھر کلہاڑی وہاں پر پھینک کر چلی گئی جبکہ فیروزہ نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
فہمیدہ کمرے سے باہر آئی اور فون پر متعلقہ پولیس اسٹیشن کا نمبر ڈائل کر دیا۔
☆☆☆☆
نور بنت نذیر اور امان علی دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور باتیں کر رہے تھے کہ فارس بھی اُن کے کمرے میں داخل ہوا۔ فارس کو دیکھ کر نور حیرت زدہ ہو گئی جبکہ امان علی کا چہرہ غصے سے ایکدم سرخ ہو گیا۔ فارس نور اور امان علی کو وحشیانہ نگاہوں سے گھور رہا تھا۔
۔"اوہ تو تم مجھے یہ تماشا دیکھانے کے لیے یہاں لائی تھی۔"امان علی نے غڑاتے ہوئے کہا تو نور ہڑبڑا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی جبکہ فارس امان علی پر جھپٹ پڑا اور اُس نے امان علی کو گردن سے دبوچ لیا۔ امان علی نے بھرپور مزاحمت کی لیکن فارس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ نور آگے بڑھی اور فارس کے کندھے کو تھپھپاتے ہوئے بولی۔
۔"فارس! امان علی کو چھوڑو یہ میرا شوہر ہے۔"فارس نور کی بات نہیں سن رہا تھا اور اُس نے امان علی کی گردن پر دباؤ بڑھایا تو امان علی کو سانس رکتا ہوا محسوس ہوا جبکہ نور بنت نذیر نے فارس کے سنہری بالوں کو پکڑ لیا۔ فارس نے اُمان علی کو چھوڑ دیا اور نور نے فارس کے بالوں کو چھوڑ دیا۔ فارس نور کی جانب پلٹا اور اسے گھورنے لگا تھا جبکہ امان علی اپنی سانسیں بحال کرنے کے بعد کمرے سے نکل گیا۔
۔"تم وہی ہو نا؟"فارس نور بنت نذیر کو گھورتے ہوئے بولا اور پھر عجیب انداز میں مسکرایا تو نور خوفزدہ ہو گئی۔ وہ بھاگ کر کمرے سے نکل گئی تو فارس بھی اُس کے پیچھے بھاگ پڑا۔ پہلے نور بنت نذیر نے آستانہ کے بڑے صحن کی جانب جانے کا سوچا جو کہ آستانہ کے داخلی گیٹ کی جانب تھا لیکن پھر وہ آستانہ کے عقبی حصے میں چلی گئی جہاں پر بڑی تعداد میں پھولدار پودے اور کچھ پالتو جانوروں پرندے کے پنجرے پڑے تھے۔ فہمیدہ نے جب فارس کو نور کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا تو اُس نے جس کلہاڑی سے فیروزہ کو مارا تھا وہ کلہاڑی اُس نے فارس کے سامنے پھینک دی اور خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ دندناتے ہوئے فارس بھی وہاں آ گیا۔ فارس کے ہاتھ میں کلہاڑی دیکھ کر نور بنت نذیر خوفزدہ ہو گئی اور اُس کے حلق سے زوردار چیخ بلند ہوئی۔ مالی بابا نے جب فارس کو نور بنت نذیر کی جانب جھپٹتے دیکھا تو اُس نے ایک گلدان اٹھایا اور فارس کی جانب بڑھا۔ جیسے ہی فارس نے نور پر وار کرنے کے لیے کلہاڑی بلند کی تو عقب سے مالی بابا نے فارس کے سر پر گُلدان مار دیا اور فارس بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ نور بنت نذیر خوفزدہ نگاہوں سے مالی بابا کی جانب دیکھ رہی تھی کہ فہمیدہ بیگم پولیس کے ہمراہ وہاں آ گئی۔
۔"اس پاگل لڑکے نے پہلے میرے شوہر اور ہماری خادمہ فیروزہ کو کلہاڑی مار کر قتل کر دیا اور اب میری بھتیجی نور کو قتل کرنے والا تھا۔"فہمیدہ بیگم نے رو دینے والے انداز میں پولیس انسپیکٹر کو بتایا جبکہ فہمیدہ کی اُنگلی کا اشارہ فارس کی جانب تھا۔
نور بنت نذیر پھٹی پھٹی نگاہوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی جب پولیس فارس اور کلہاڑی کو اٹھا کر لے گئی جبکہ فہمیدہ بیگم اب زور زور سے رو رہی تھی۔
☆☆☆☆
جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments