Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari By Amir Sohail Episode 12 - Daily Novels

ناول۔۔۔آفت کی ماری

ناول نگار۔۔عامر سہیل

قسط۔۔۔12


اب نمرہ کے پاس جینے کی وجہ ہی ختم ہوتی چلی جا رہی تھی، شگفتہ اور دادی اسے نہیں مل رہی تھیں اور اب یہ طلاق نام کا پہاڑ اس کے سر پہ توڑ دیا گیا تھا، جب شگفتہ اور دادی نہیں ملیں تو اسے ایک آسرا تھا چلیں اختر تو ہے، اسے آسرا دے گا، اسے سہارا دے گا، مگر اب یہ اختر نام کا سہارا بھی ٹوٹ چکا تھا، اب وہ بالکل تنِ تنہا رہ گئی تھی، وقاص کی ماں نے اس سے کہا کہ بیٹا، ہمارے گھر میں رہا کرو، اور مجھے اپنی ماں ہی سمجھو، پھر مجھے بھی کب سے ایک بیٹی کی تلاش ہے کہ جو کام میں میرا ہاتھ بٹا سکے، میرے ساتھ گپ شپ لگا سکے، میرے سنگ سنگ رہا کرے، جب وقاص تھکا ہارا کام سے لوٹے تو اس کیلئے چائے بنا دے، اس کیلئے بھاگ بھاگ کر کھانا اٹھا دے، وقاص اسی دوران آ گیا اور بولا کہ امی جان، کیوں آپ ذہنی دباؤ دے رہی ہیں نمرہ کو؟ جب وہ ہمارے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی تو اسے اپنا کوئی کام کرنے دیں، میں روز اسے چھوڑ بھی دوں گا اور لے بھی آؤں گا، اس سے بڑھ کر میں کچھ نہیں کر سکتا، نمرہ سوچنے لگی کہ اب وقاص کے علاوہ اس کا کوئی سہارا بھی تو نہیں، مگر وہ اس طرح کسی کے اوپر بوجھ بھی نہیں بن سکتی، کیونکہ اس نے زندگی بھر کسی کے اوپر انحصار نہیں کیا اب کیونکر اپنی زندگی کو یونہی مردہ دلوں کی طرح گزار دے، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ چند دن وقاص کے گھر رہے گی مگر مستقل اسے اپنا ٹھکانہ نہ بنائے گی، کیونکہ وقاص کی ماں سوچے گی کہ مفت کا مال جو ہاتھ لگا تو مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق جم کر بیٹھ گئی ہے، اس نے یہ بھی سوچا کہ اگر مستقل طور پر یہاں رہتی ہے تو باہر کے لوگ یہ سوچیں گے کہ نہیں معلوم اس کے وقاص کے ساتھ کیا تعلقات ہیں؟ یہ ساری باتیں اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں اور وہ ان باتوں سے بچنا چاہتی تھی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*********

اس نے ایک نجی کمپنی کے سامنے وقاص سے کہا کہ بس یہی گاڑی کو روک دو کیونکہ اس دفتر میں، میں نے کال کی تھی اور اس کے مالک نے مجھے آج انٹرویو کیلئے کہا تھا، بس وقاص دعا کرنا کہ میری جاب ہو جائے، میں بہت پریشان ہوں، دوسرا یہ بھی دعا کرو کہ میری بہن اور میری دادی جی بھی مل جائیں کیونکہ میں ان کی وجہ سے بھی بہت پریشان ہوں، اگر وہ نہ ملیں تو بھی میری زیست سمجھو بے مقصد ہے، ان کے سوا تو اب میرا کوئی اپنا نہیں رہا، وقاص فوراً بولا کہ نمرہ کیا ہم آپ کے اپنے نہیں ہیں؟ کیا آپ ہمیں اپنا نہیں سمجھتیں؟ کیا امی نے یا میں نے آپ کے ساتھ بیگانیت کا ثبوت دیا ہے؟ کیا امی کی یا میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر میں آپ سے طلبگارِ معافی ہوں، نمرہ نے چونکتے ہوئے کہا کہ نہیں وقاص ایسا کچھ بھی نہیں ہے،آپ لوگ ہی تو مشکل میں میرا سہارا بنے، اگر آپ لوگ نہ ہوتے تو نہیں خبر میرا کیا بنتا؟ میں در بدر کے دھکے کھاتی پھرتی اور یہ ظالم سماج نہیں خبر میرے ساتھ کیا برتاؤ کرتا، اس سماج کو تو آپ جانتے ہو، کس طرح ایک اکیلی عورت کو دیکھ کر اس کے ساتھ ناروا اور غیر انسانی سلوک سرزد کیا جاتا ہے، کس طرح اسے نوچا جاتا ہے، کس طرح اس پر جیون تنگ کر دیا جاتا ہے، لوگ اس پر کسی شکاری کتے کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں، یقین نہیں آتا تو چند دن پہلے مینارِ پاکستان پر آئی عائشہ کا حال دیکھ لو، کس طرح انسانوں کا ایک پورا جتھا اس کی عزت ریزی اور آبرو کو ٹھیس پہنچانے کی غرض سے اس کی جانب لپکا تھا اور بیچاری کس طرح چیخی چلائی تھی، مگر ان بے رحم شکاریوں اور درندہ صفت انسانوں کو پھر بھی اس بنتِ آدم پر رحم نہیں آیا تھا، یہ تو سماج کے بھیڑیے ہیں بھیڑیے، خیر چھوڑو میں آپ کو کال کر دوں گی مجھے لینا آجانا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*********

رات کے پچھلے پہر ہمسایہ موٹر سائیکل لیے آ گیا، مہرو چپکے سے اٹھی، اپنا سامان سے بھرا بیگ جس میں سونا اور نقدی کے علاوہ کپڑے وغیرہ بھی موجود تھے اٹھایا اور چل دی، ایک مرتبہ بھی یہ نہیں سوچا کہ میری ماں کا اتنا بڑا نام ہے اس کا کیا بنے گا؟ میرے باپ کا کیا بنے گا؟ اسے تو بس ایک ہی فکر تھی کہ ڈینگی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اور ڈینگی سے بچنے کا اس سے بہتر کوئی راستہ نہ تھا،کیونکہ اس کے خیال میں اگر بیگم صاحبہ کو کانوں کان خبر ہو جاتی تو نہ صرف وہ اسے روکتی بلکہ جو روپیہ اور سونا وہ ساتھ لے کر جا رہی تھی اس کا بھی معاملہ خراب تھا، اسے اس بات پہ قوی یقین تھا کہ ہمسایہ اس کے ساتھ شادی بھی کرے گا اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت بھی، وہ اس میں اپنا مجازی خدا دیکھتی تھی اور چاہتی تھی کہ اسے اب روز روز کی الفتوں اور محبتوں سے بھاگنا ہے، بہت دور، اس لیے اب چاہتی تھی کہ ہمسایہ ہی اس کے دکھ سکھ کا ساتھی اور ہمنوا بن جائے، وہ ہر کسی سے محبت سے ملنے والی اذیت سے زچ ہو چکی تھی، اب چاہتی تھی کہ اسے کوئی سچی محبت کرنے والا مل جائے، جس کے زہن و دل میں عورت کی توقیر اور محبت رچی بسی ہو، اس کے دل میں عورت کیلئے عزت پنپتی ہو، جو فقط اسی کا ہو کے رہے اور بس،یہ سب سوچیں لیے وہ ہمسائے کے ساتھ گھر سے بھاگنے کیلئے تیار ہو گئی،ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں ڈر بھی تھا، کیونکہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ جب نتھو کی لڑکی زہراں کلیم کے ساتھ بھاگی تھی تو اس کا کیا انجام ہوا تھا، اس کے دل میں خدشات بہرحال موجود تھے، مگر ان سب چیزوں کو نظرانداز کیے وہ ہمسائے کے ساتھ موٹر سائیکل پہ سوار ہوئی اور چل دی۔۔۔


Post a Comment

0 Comments