Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Aqal E Ishq By Rai Sawera Fatima Episode 1

"عقلِ عشق "
قسط نمبر 1
پیپر کیسا ہوا ؟
ایمن دوڑتی ہوئی امتحانی کمرے سے نکلی اور ایشال جو کہ سیڑھیوں پر تھوڑی غمگین حالت میں کھڑی تھی اس کے کاندھے کو چھوتے ہوئے کہا ایشال بھی جیسے ایمن کی منتظر تھی ایمن کو دیکھتے ہوئے چلنے لگی 
ایشال  نے چلتے چلتے کہا "اچھا ہوگیا ہے "
بس اچھا ؟ایمن بھی چلتے چلتے اور اس کے منہ کو دیکھتے ہوئے کہا ایشال نے ثبات میں سر ہلایا اور کہا
صباء کدھر ہے ؟وہ بھی نہیں آئی؟ایشال  نے کینٹین کے بینچ پر بیٹھے ہوئے کھڑی ایمن سے پوچھا 
تمہیں پتا تو ہے وہ ساری کلاس کو الوداع کرکے اور سب سے پیپرز کی خیر خیریت پوچھ کر ہی آئے گی ۔ایمن نے اس کے سامنے والے بینچ پر بیٹھے ہوئے جیسے انکشاف کیا 
ایمن نے ایشال کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا "ایشال کیا یہ ہماری بھی دوسری کلاس کی طرح آخری ملاقات ہے ؟
"پتا نہیں "ایشال نے غیر حاضر انداز سے جواب دیا 
کیا پتا نہیں جو پوچھ رہی ہوں بس اس کا ہاں یا نہ میں جواب دے رہی ہوں تمہیں خیر تو ہے ایمن نے تلخ  انداز میں کہا 
کیوں لڑ رہی ہو تم ایشال کے ساتھ ان کے پاس بیٹھتے ہوئے صباء نے سوالیہ لہجے میں ایمن سے پوچھا 
ایمن :بس اس کو تو ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس کے گھر والوں نے اسے نکلنے ہی نہیں دینا ایشال ایمن کی بات کاٹتے ہوئے "آ گئی ہو تم؟ کب سے ہم تمہارا ویٹ کر رہے ہیں؟ کیا کھانا ہے ؟ایشال نے یہ سارے سوالات ایک ہی سانس میں پوچھ دیئے 
صبا کو ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا کوئی اندازہ نہیں تھا اور اس نے بھی یہ پوچھا "کیا یہ ہمارا اس کینٹین سے آخری کھانا ہے ؟"
ایشال :تم بھی ایمان جیسی باتیں کرنے لگ گئی ہو 
صبا اپنی بات کی تلافی کرتے ہوئے کہا "نہیں انشاءاللہ ہم اس طرح تینوں بیٹھ کر کھائیں گے یونیورسٹی میں "
"انشاءاللہ "ایمن نے پر جوش انداز سے کہا اور دونوں ایشال کی طرف دیکھنے لگ گئیں
ایشال اگر تم اپنے گھر والوں سے بات کروں تو شاید وہ مان جائیں ایم نے بہت نرم لہجے سے کہا 
ایشال :جیسے یہی بات میں نے نہیں کی میں نے کہیں دفعہ امی سے باباسے بات کی ہے اور امی تو بس یہی کہتی ہے کہ پرائیویٹ پڑھ لو کسی نے بھی تمہیں یونیورسٹی کی اجازت نہیں دینی 
صباء: تو انکل کیا کہتے ہیں ؟
بابا کہتے ہیں کہ بیٹا پہلے بی ایس سی تو ختم کر لو پھر دیکھتے ہیں ایشال نے مایوسی کے ساتھ کہا 
انشاءاللہ تم اپنے گھر والوں کو کنوینس کر لو گی ایمن بات کو ختم کرتے ہوئے کہا اور کہا چلو کچھ کھاتے ہیں کھاتے کھاتے ایمن نے ایک بار پھر چھٹیوں کے متعلق بات کی 
یار! ان چوٹیوں میں ہم کیا کریں گے اشعال نہیں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ابھی تو میں چھٹیوں کو انجوائے کرو گی کیونکہ عمر بھائی کی چھٹیوں میں منگنی کرنی ہے اور ان کے کیپٹن بننے کی خوشی میں فل فیملی کا ڈنر پلان کرنا ہے کیوں کو لے کر بہت خوش ہوں اور اچانک ایشال کے منہ پر خوشی ہوا ہو گئی جب اس نے مایوسی والے انداز میں کہا کہ ہو سکتا ہے یہ چھٹیاں . . .  اب مستقل ہو جائیں اور مجھے آگے پڑھنے ہی نہ دیا جائے 
اللہ نہ کرے ایسا ہو صبا نے ایشال کو ڈانٹتے ہوئے کہا 
پھر وہ تینوں ایک دوسرے کے گلے ملیں اور اپنے گھر کو روانہ ہوگی 
ہال میں داخل ہوتے ہوئے ایشالظفر شاہ نے سلام کا حالانکہ سے ابھی تک گھر کا کوئی شخص نظر نہیں آیا تھا اس نے اپنے کمرے کی طرف رخ کیا اور کمرے میں جاتے ساتھ اپنی گھڑی اپنے بائیں ہاتھ سے اتار کر شیشے کے سامنے رکھیں اور خود کو شیشے کے سامنے ایک دفعہ دیکھا اور پھر اپنا دوپٹہ اتار کر سائیڈ پر رکھ دیا اور فریش ہونے کے لیے چلی گئی آدھے گھنٹے بعد کمرے سے باہر آئ تو ہال میں نانی جان بیٹھی ہوئی تھی جن کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور وہ پڑھ رہی تھی "جب میں آئی تو تب آپ سب لوگ کدھر تھے ایشال نے ناراضگی والے لہجے سے پوچھا؟ نانی مسکراتے ہوئے اور وہی تسبیح کو  روکتے ہوئے ایشال  کے سوال کا جواب دیا اور کہا میں تو کمرے میں تھی اور زرتاش کریمہ کے ساتھ کھانے بنانے میں مصروف ہے 
ایشال اپنی نانی کی بات کاٹتے ہوئے" کیوں شبّو  کدھر ہے جو امی کریمہ کے ساتھ کھانا بنا رہی ہے  "
نانی نے مسکراتے ہوئے کہا وہ عمر کا کمرہ سیٹ کر رہی ہے 
ایشال  نے ایک بار پھر نانی کی بات کاٹی اور کہا 
کیا عمر بھائی آرہا ہے؟ اور کسی نے مجھے بتایا ہی نہیں۔ میری کل تو بات ہوئی تھی اس نے تو مجھے نہیں بتایا یہ تمام باتیں وہ بغیر کسی سانس کے لئے کر رہی تھی اور پھر خود ہی اس مسئلے کا حل دریافت کرتے ہوئے فون کی طرف بڑھی اور عمر ظفر شاہ کا نمبر ڈائل کیا اور فون کے رسیو ہونے کا انتظار کرنے لگی اور بہت سخت غصے میں نظر آ رہی تھی 
اسلام علیکم کیسی ہو ایشال ؟
عمر نے فون ریسیو کرتے فورا کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب ایشال گھر آئے گی اور ایسے پتہ چلے گا کہ وہ آ رہا ہے تو اسے غصہ آئے گا کیونکہ اس نے خود کیوں نہیں اسے بتایا 
آپ نے مجھے خود کیوں نہیں بتایا کہ آپ آ رہے ہیں حالانکہ کل میری آپ سے بات ہوئی تھی میں ناراض ہوں آپ سے عشال نے عمر سے کہا 
سلام کا جواب اتنا لمبا تو نہیں ہوتا عمر نے طنزیہ انداز میں کہا ؟
مجھے آپ نے کیوں نہیں بتایا ایشال ابھی بھی اپنی بات پر اٹکی ہوئی تھی
اچھا بتاتا ہوں پہلے لمبی سانس لو عمر  نے ایشال کو پر اطمینان والے لہجے میں کہا 
کیوں ؟ایشال نے عمر سے ناراضگی والے لہجے میں پوچھا 
کیونکہ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ تم بات نہ کرو تو اتنی دیر بولتی نہیں ہو اگر بات کرنے پر آ جاؤں تو سانس لیے بغیر اتنی لمبی بات کر دیتی ہوں کہ بس عمر نے جتانے والے لہجے میں کہا 
اچھا میں نے تمہیں اس لیے نہیں تھا کل بتایا کیونکہ اگر تمہیں پتہ چل جاتا تو تم اپنی پیپر کی تیاری ہی نہ کرتی ہوں بات ختم کرنے کے بعد ایشال کے سوال کا جواب دیا کے اس نے اس وقت تک یہ ہی سوال کرتے رہنا تھا اور کوئی بات نہیں کرنی تھی جب تک عمر اس کے سوال کا جواب نہ دے دیتا 
پیپر کیسا ہوا ؟عمر نے ایشال سے پر اطمینان طریقے سے پوچھا  
اچھا ہوگیا ہے اور آپ کی فلائٹ کب کی ہے ؟گھر کب تک پہنچیں گے ؟ایشال  نے عمر کے سوال کا جواب دینے کے بعد ایک پھر سوال پوچھ لیا 
عمر نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پانچ بجے کی فلائیٹ ہے اور میں سات کے قریب ایئرپورٹ لاہور ہوگا اور پھر گھر کو آتے ہوئے تھوڑی دیر لگ جائے گی اور میں آپ کو تنگ کر رہا ہوں یہ جملہ اس نے اپنے جواب میں مزید  شامل کر لیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایشال کا اگلا سوال یہی ہوگا 
اچھا خدا حافظ اشعار نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور اب کم غصے میں کچن کی طرف گئی جہاں زرتاش عمر کی پسندیدہ ڈشز بنانے میں مصروف تھی 
آپ نے بھی مجھے نہیں بتایا کہ عمر بھائی آرہاہے ؟جاتے ساتھ کیچن میں ایشال نے اپنی امی سے پوچھا 
اس نے خود ہی منع کیا تھا کہ پھر تم کہیں اپنے آخری پیپر کی تیاری نہ کرو اور بتاو پیپر کیسا ہوا؟ 
اچھا ہو گیا ہے _ایشال  اپنے غصے کو ختم کرتے ہوئے کہا اور کہا امی آج عمر بھائی تین مہینے بعد کراچی سے گھر آرہے ہیں نیوی میں کیپٹن کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آج گھر آرہے ہیں چاہے بات ہوتی رہی ہے فون پر لیکن جو گھر میں ان کی موجودگی کا احساس ہوگا وہ علیحدہ ہو گا نا 
ہاں یہ تو ہے نے دے زرتاش نے دیگچی میں چمچ چلاتےہوئے پر جوش لہجے میں کہا 

ادیان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ادیان  روکو 
حبیبہ نے پیچھے سے آواز دی جب ادیان فاروق شاہ سیاہ پینٹ سوٹ اور سیاہ سن گلاسز لگائے ہوئے ہال کے دروازے سے باہر جا رہا تھا 
"جی " ادیان نے پیچھے مڑتے  ہوئے اور  بھنوے چڑھاتے ہوۓ کہا 
امید ہے کہ آپ سب پسند آئے گی

Post a Comment

0 Comments