Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Dil Se Dil Tak Episode 19 | By Sidra Shah - Daily Novels

#__ساجن میرا قلفی کمار 

#__ســـــــدرہ شـــــاہ 

#قسط____24


**


یا اللہ خیر بی جان یہ کیا ہوا 

سالک یہ بی جان کی ایسی حالت 

ناعیمہ ایوان نے عالیہ ایوان کو نڈھال سی حالت میں اندر آتا دیکھا تو پریشانی سے بولی 


سالک آخر ہوا کیا ہے تم کچھ بتا کیوں نہیں رہے 

سالک جو بی جان کو آرام سے صوفے پر بیٹھا کر وہی سر جھکائے کھڑا تھا ناعیمہ ایوان کی آوازہ پر اس کی جانب دیکھا 

غصہ ضبط کرنی کی وجہ سے چہرہ سرخ تھا 

آنکھوں لال 

ناعیمہ ایوان تو ڈر ہی گی ان دونوں کی حالت دیکھ کر 

سحرش نے بی جان پر جان لیوا حملہ کیا ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔!! 

سالک نے غصہ سے مٹھیاں  سختی سے بنچتے ہوۓ کہا 

یا اللہ  یہ۔۔۔۔یہ کیا۔ کہہ رہے ہو 

ناعیمہ ایوان کا ہاتھ دل پر پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔!! 

اور ان کے منہ سے بے ربط جملہ برآمد ہوا 

اتنا ہی نہیں مام طہرہ چاچی بھی وہی موجود تھیں اور انھوں نے سحرش کو روکنے کی کوشش تک نہ کی 

کیا یہ سب تم کیا کہہ رہے ہو

سالک کے اس انکشاف پر ناعیمہ ایوان حیرانگی اور پریشانی سے بولی۔۔۔۔

 سحرش سے تو اس سے بھی برے کی امید کر سکتی تھی پر طہرہ سے اس سب کی امید ناعیمہ ایوان کو بلکل نہیں تھی 

سالک بس چپ کر جاو بچے جھوٹ کی قلعی تو آخرکار کھل ہی جاتی ہے 

سحرش اور طہرہ نے مجھے بہت گزند پہنچایا ہے ۔


عالیہ ایوان رنجیدہ لہجے میں بولی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے 

سحرش کی اچھی تربیت نہ کر کے طہرہ نے اپنی ہی لٹیاڈبودی(نقصان )

بی جان آپ روۓ نہیں 

سالک نے دونوں زانو پر بیٹھ کر عالیہ ایوان کے آنسوں پونچھے 

میرا بچہ  میرا پیارا بیٹا 

عالیہ ایوان نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھرتے ہوۓ کہا 

بی جان آپ روۓ نہیں اگر آپ کہیںی گئی تو میں سحرش سے شادی کرنے کے لے بھی تیار ہوں 

سالک نے یہ الفاظ کیسے بولے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا پر اپنی بی جان کو اس حال میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا 

نہیں سالک بلکل نہیں بچے میں ہی پاگل تھی جو سحرش کی باتوں میں اکر تمھاری زندگی برباد کرنے چلی مجھے معاف کر دو بچے 

بی جان نے سالک کے ہاتھوں کو پکڑ کر روتے ہوۓ کہا 

نہیں بی جان معافی آپ کیوں مانگ رہی ہے بلکہ مجھے مانگنی چاہیئے میں اگر اپکو وہاں اکیلا نہ چھوڑ کر جاتا تو آج آپ اس حال میں نہ ہوتی 

سالک نے شرمندی سے کہا 

بیٹا میرے اس حال کے زمہ دار

بھی وہی لوگ ہے جن پر  میں نے تن من دھن نثار کر دیا 

انہی اپنوں نے مجھے موت کے گھاٹ اتارتے ہوۓ بھی ایک پل کی دیر تک نہ کی 

عالیہ ایوان آبدیدہ لہجے میں بولی 

بی جان آپ کچھ نہ سوچے اس بارے میں ہم ہیں نہ اپکے اپنے 

پاپا  میں  ماما عاینہ سب اپکے اپنے ہی ہیں 

سالک نے عالیہ ایوان کو دلاسا دیا 

بی جان سالک ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے 

ناعیمہ ایوان نے پیار سے عالیہ ایوان کی کمر تھپتھپاتے کہا 

تم سب میری جان ہو اب شاباش سالک جاو آرام کرو دیکھو میرے بچے کا منہ اتنا سا نکل آیا 

عالیہ ایوان نے فکرمندی سے کہا 

پر بی جان اپکو اکیلے 

میرے پاس ناعیمہ اور عاینہ ہے تم جاو آرام کرو 

عالیہ ایوان نے سالک کی بات کاٹتے ہوۓ پیار سے سمجھایا 

عالیہ ایوان نے اپنے آپ کو جلدی ہی سنبھال لیا تھا 

جی بی جان جیسے آپ کہیں

سالک نے احترم سے سر جھکا کر کہا اور چلا گیا 

احمد کا انتخاب بہت اعلی تھا 

اور سالک کا اس سے بھی اعلی ہو گا انشاءاللہ 

عالیہ ایوان نے ناعیمہ کو کہا 

انشاءاللہ بی جان 

ناعیمہ ایوان نے بھی کہا 

اور دونوں بیک وقت مسکرائی۔

۞۝۞۞۝۞۞۞۝

سالک بیک کراون سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا 

سامنے کھڑکی سے نظر آتے چاند کو محویت سے دیکھ رہا تھا جیسے چاند میں کسی کا عکس تلاش کر رہا ہو

انہوں ۔۔۔۔۔۔ وہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہے 

سالک نے خود کے خیالات کی نفی کرتے ہوۓ بولا 

وہ کسی کی یادوں کے حصار میں قید تھا 

اگر کوئی اور اسے ایسے حال دیکھتا تو خطبی یا دیوانہ کہتا 

دماغ کی سکرین پر کچھ مسرور کردینے والے واقعات چل رہے تھے 

وہ اس دنیا کا باسی تو لگ ہی نہیں رہا تھا وہ تو کہی اور ہی گم تھا

مس پاور فل گرل اب آپ کے اور میرے بیچ یہ دوریاں ہمیں ناگزیر گزرہی ہے 

ایل سی  ڈی پر یہ غزل لگی وہی تھی 

#__کہا ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضہ ہے 

سالک اس غزل کے الفاظ میں گم 

تھا ۔۔۔

اچانک اس کے زہن میں ایک خیال آیا جس پر اس نے فوری عمل کیا 

سائیڈ ٹیبل پر پڑا بے بے تحاشہ قیمتی سیل فون کو چارج سے نکال کر اس نے اپنا مطلوبہ نمبر ڈائل کیا بیل جیسے جیسے بیل جارہی تھی اس کی دل کی دھڑکنوں کی رفتار میں اضافہ ہو رہا تھا 

ہیلو کیسا ہے تو یار ذرا جوتوفیق 

ملی ہو مجھے کال کرنے کی 

سالک نے شکوے بھرے انداز میں کہا

یار میں تو ٹھیک ہوں تم سناو 

مقابل کے لہجے میں عجیب سی پریشانی تھی جیسے سالک نے فورن ہی بھاپ لیا 

کیا ہوا سب خیریت ہے نا 

اچھا ان سب باتوں کو چھوڑ 

تو بتا وہ کیسی ہے 

سالک نے بے صبری سے کہا 

دیکھ میرے بھائی میں نے تجھ سے اس لے ہی رابطہ نہیں رکھا کہ کہی تو یہ سوال نہ پوچھ لے 

پر اب شاید تجھے بتا دینا ہی ٹھیک ہو گا 

ہاں بول نہ کیا بات ہے 

سالک نے پریشانی سے پوچھا اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا جیسے کچھ بہت برا ہوا ہو 

ڈونٹ کریٹ سسپینس اینی مور 

سالک نے تھوڑے غصے بھرے لہجے میں مخاطب ہوا 

وہ چلی گی میرے دوست ہم سب ہو چھوڑ کر آگ لگنے کے باعث وہ مر گی 

مقابل نے بڑی آبدیدہ لہجے میں کہا 

د یکھ ت تو مزاااخ نن کر 

سالک کا دماغ موف ہو چکا تھا 

گلے میں سانس اٹک گی تھی 

وہ بامشکل بول پایا 

حوصلہ رکھ تو بھول جا وہ چلی گئی

بکواس بند کر اپنی ورنہ جان سے مارڈالوں گا کیا اول فول بک رہا ہے 

سالک حلق کے بل چلایا 

یہ حقیقت ہے جتنی جلدی ہو سکے تسلیم کر لے ۔۔

 کال کٹ گی پر سالک کی تو دنیا ہی اجڑ گی تھی جس بھیانک حقیقت کا اس ہر آج انکشاف ہوا تھا وہ ایسے تسلیم کر ہی نہیں پارہا تھا 

نا نہیں یہ جھوٹ بول رہا ہو گا 

وہ زندہ ہے 

اس کی سانسوں کی خوشبوں میں محسوس کر سکتا ہوں 

نہ نہیں وہ زندہ ہے 

وہ جیسے خود کو دلاسا دے رہا ہو

اس کے ہاتھ میں سیل رنگ ہوا 

اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل 

کھولا  ایک وڈیوکلپ تھی 

اس نے وڈیوکلپ لگائی 

جوں جوں وہ وڈیوکلپ دیکھتا جارہا تھا 

اس کی دل کی دھڑکنے مدھم ہوتی جارہی تھی 

موبائلل کی سکرین پر سالک کے آنسوں گر رہے تھے 

وڈیوکلپ میں اینکر چیخ چیخ کر اس بھانک حقیقت کو بیان کر رہا تھا 

سالک خستہ حال سے اٹھا کار کی کیز اور موبائل لیا اور لڑکھڑاتے  قدموں سے باہر کی جانب بڑھا 

سالک سالک بیٹا کہاں جارے ہو رکو تو 

ناعیمہ ایوان جو عاینہ کے لے دودھ لے جارہی تھی سالک کی حالت دیکھ کر پریشانی سے آوازہ لگائی 

پر سالک کو تو کچھ سنائی ہی نہیں دی رہا تھا وہ بھاگتا ہوا 

باہر چلا گیا 

یا خدا سالک کو اس حال میں کبھی نہیں دیکھا میرے بچے کی حفاظت کرنا 

ناعیمہ ایوان نے روتے ہوۓ کہا 

ہاں شاویز شاویز کو کال کرتی ہوں 

انھوں نے نمبر ڈائل کیا جو دوسری ہی کال میں اٹھا لیا گیا 

اسلام علیکم انٹی اتنی رات گۓ آپ نے کال کی خیریت 

شاویز نے حیرانگی اور پریشانی سے استفسار کیا 

شاویز بیٹا کچھ نہیں پتا سالک بہت بری حالت میں باہر گیا ہے اللہ جانے کیا ہوا ہے تم زرا پوچھو میں نے سالک کو کبھی بھی اس حال میں نہیں دیکھا 

ناعیمہ ایوان نے تڑپتے ہوۓ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا 

اچھا ٹھیک ہے آپ روۓ نہیں سنبھالے خود کو ہاں میں پوچھتا ہوں 

شاویز نے تسلی دیتے ہوۓ کہا 

آنٹی آج کچھ ہوا تھا  

شاویز نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا 

ہاں وہ سحرش ۔۔۔۔ پھر  ساری بات بتادی 

اس لی تو کلیجہ منہ کو آرہا ہے شاویز بیٹا جیسے ہی کچھ پتا چلے مجھے بتانا 

ناعیمہ ایوان نے کہا 

جی جیسے ہی کچھ پتا چلتا ہے میں اپکو فوراً بتاتا ہوں آپ پریشان نہ ہو ٹھیک ہے اب فون رکھتا ہوں

یا اللہ سالک ٹھیک ہو 

ناعیمہ ایوان نے آبدیدہ لہجے میں دعا کی 

۞۞۞۞۞۝۝*۝

بلیک لینڈ کروز ہوا سے باتیں کرتی ہوئی جارہی تھی 

سالک کی آنکھوں آنسوں سے تر تھی 

گاڑی کی سپیڈ خطرناک حد تک تیز تھی 

وہ مسلسل شاویز کی کال کاٹ رہا تھا .

بارش اس کی گاڑی پر طوفانی اندازہ میں برس رہی تھی اور تیز ہوا کے جھونکے جب سڑک پر لگے پیڑوں سے ٹکراتے تو ایک خوف ناک سا تاثر فضا میں پھیل جاتا لیکن اس سے بھی زیادہ ہولناک حقیقت وہ تھی جس کا پردہ آج سالک ایوان کے سامنے چاک ہوا تھا ۔

ہیلووو شاویز مج مجھے یہاں سے لے جاو ۔۔۔۔

سالک نے بےدردی سے اپنے آنسوں آستینوں سے پونچھتے ہوۓ کہا اور کال بند کردی 

سالک کو ایک دم ہی گاڑی میں گھٹن کا احساس ہوا ایسے لگا جیسے وہ ایک منٹ بھی گاڑی میں رکا تو اس کا سانس بند ہوجاۓ گا 

سالک نے کانپتے ہاتھوں سے گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا

سرد ہوا نے اس کے جسم کو ہلکی سی کپکپاہٹ میں مبتلا کیا,  لیکن وہ بارش کی پروا کیے بغیر سڑک پر چلنے لگا 

تیز ہوا سے ہونے والی درختوں کے پتوں کی شائیں شائیں ماحول کو بہت خوفناک بنارہے تھے , تیز بارش ہونے کے باعث وہ چند منٹوں میں بھیگ گیا تھا 

وہ وہی گھٹنوں کے بل گر گیا 

آہہہہہہہ ۔۔۔۔ ہہہہ   سالک اپنے بالوں کو مٹھی میں پکڑ کر چلایا ۔

ایسی وقت شاویز کی گاڑی آئی 

شاویز ڈورتا ہوا سالک کے پاس آیا

سالک یہ کیا حالت بنا رکھی ہے اٹھو 

شاویز تو سالک کی حالت دیکھ کر ڈر ہی گیا تھا 

بکھرے بال سوجھی   لال آنکھیں

بے ترتیب حُلیہ  وہ کہی سے بھی پہلا والا سالک نہیں لگ رہا تھا 

سالک پلیز اٹھو۔۔۔۔۔۔۔ یار یہ کیا حالت بنا رکھی ہے اٹھو میری جان,  شاویز نے زبردستی سالک کو اپنے بازوؤں کی گرفت میں لے کر گاڑی تک آیا دروازہ کھولا اور ایسے اندر بٹھانے میں مدد کی  , سالک کا چہرہ بے تاثر تھا 

وہ بے سدھ سا بیٹھا تھا 

شاویز کی نظرے بار بار سالک کی جانب اٹھ رہی تھی 

شاویز کو وہ کسی گہرے صدمے میں تھا 

ایک گھنٹے کے بعد وہ لوگ گھر پہنچے ۔

۞۞۝۞۞۝۞۞۝………

وہ بہت محو سے کتاب پڑھ رہی تھی,  پر اس کا دھیان بار بار بھٹک رہا تھا

اوف اس نواب کو بھی چین نہیں لگتا ہے بار بار آجاتا ہے دھیان بھٹکانے دھت ہم کیوں سوچ رہے ہیں اس کے بارے میں 

اس نے ماتھے پر ہلکی سی چت لگائی 

پر وہ بھی بہت ضدی تھا اس کے خیالوں سے جاہی نہیں رہا تھا 

ابھی وہ ایسی میں الجھی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھول کر اسکی ماں آئی 

اس کے اوپر دعائے دم کی 


آپ اتنا پریشان کیوں ہوتا ہے امی گل  

کیا کریں بچیا  ہمارا دل مانتا ہی نہیں 

تم کل پیپر دینے جارہا ہے بس ایسی بات پر دل بیٹھا جارہا ہے

جیسے ہی پیپر دو فوراً گھر آنے کی کرنا,  خطرہ ابھی ٹلا نہیں 

دھیان سے آنا اگر خدانخواستہ انھوں نے دیکھ لیا تو 

انھوں نے دل میں پنہاں خدشہ بیان کیا 

آپ اتنا نہ سوچا کریں  ہم دھیان سے ہی آے جاۓ گا جیسا آپ سوچ رہی ہے ویسا کچھ بھی نہیں ہوگا آپ دل میں سے سارے وسوسے نکال دے 

مہرو نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دی 

کیا کروں یہ خوف مجھے کھائے  جاتا میرا قول سرمایہ تم ہی تو ہو اب مجھ بوڑھی جان میں ہمت نہیں کہ شوہر کہ بعد بیٹی بھی کھو دوں  

اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے,

کیا اپکو اللہ پر بھروسہ نہیں 

جس اللہ نے اس وقت ان شیطان صفت لوگوں سے بچایا ہے وہ آگے بھی بچاے گا 

دیکھتا نہیں امی گل  ہمیں سر چھپانے کے لے چھت بھی مل گیا اور اتنے اچھے لوگ ہیں

بی جان نے میرا داخلہ کروادیا 

ہم پیپر دینے جارہے ہے سب کچھ آہستہ آہستہ سے ٹھیک ہورہا ہے , 

ہاں پر ہم ساری عمر تو نہیں رہ سکتے نہ یہاں اور کل کلاں تمھارے فیوچر کا بھی دیکھنا ہے 

کیسی مضبوط سائبان کے ہاتھ میں تمھارا ہاتھ تھما دوں  تو دل کو سکون آئے 

بعد کی بعد میں دیکھی جاۓ گی آپ ریلکس ہو

مہرو نے کہا 

بس بیٹا زندگی کا کیا بھروسہ میں اپنے آنکھوں کے سامنے تمھیں دلہن بنتا دیکھ لوں تو سکون سے مر سکوں 

آپ ایسا دل دکھانے والے باتیں کیوں کرتا ہے 

مہرو نے ناراضگی سے کہا 

اچھا نہیں کرتا  تم دل لگا کر پڑھو ٹھیک ہے 

ٹھیک ہے گڈ نائٹ 

مہرو کی ناراضگی ہنوزو برقرار تھی

۞۞۞۞۞۝۝۝۝۝


سالک فار گوڈ سیک یار بتاو تو آخر ہوا کیا 

شاویز سخت پریشان تھا سالک کی حالت دیکھ کر جو گم  سوم سا بیٹھا تھا, شاویز کے جھنجھوڑ کر پوچھنے پر خالی خالی  نظروں سے دیکھ رہا تھا

بول نہ بھائی پلیز یار

شاویز نے الجھن آمیز لہجے میں استفسار کہا 

اس کی خاموشی میں پنہاں کرب اس کے چہرے کے ہر نقش سے عیاں تھا,  پر یہ کرب, یہ درد آخر کیوں یہ شاویز کی سمجھ سے باہر تھا 

میرے ساتھ ہی قسمت نے اتنا برا کیوں کیا شاویز  

وہ خدا ترسی کا شکار ہوا 

کیا برا کیا یار ٹھیک طرح بتاتا کیوں نہیں 

شاویز کی برداشت ختم ہو گی 

وہ چلی گی شاویز 

سالک نے کرب سے آنکھیں میچ کر کہا 

تو یہ تو گڈ نیوز ہے نہ کہ مصیبت چلی گئی

پر تو اس کے جانے پر سوگ منا رہا ہے 

شاویز نے حیرت سے کہا , کیونکہ سالک کے سر سے سحرش نام کی بلا ٹل گی تو خوشی کے بجاۓ سالک کی یہ حالت شاویز کی سمجھ سے باہر تھی 

میں سحرش کی بات نہیں کر رہا 

سالک نے غصے سے شاویز کو دھکا دے کر کہا 

تو پھر کس کی بات 

شاویز کی سمجھ سے باہر تھی سالک کی بات 

میری محبت میری زندگی مجھے چھوڑ کر چلی گئی 

سالک نڈھال سا زمین پر ڈھے گیا 

کہ کیا مطلب 

شاویز کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا 

وہ پاؤر فل گرل وہ وہ مہ مر گی شہ شاویز  

سالک کی درد سے ڈوبی آوازہ گونجی , 

وہ دردناک واقعہ شاویز کے گوش گزار دیا

سالک کے منہ سے اس ازیت ناک 

حقیقت کو جاننے کے بعد شاویز گنگ تھا اس کے پاس ان الفاظ کی شدید قلت تھی,  جس سے وہ اپنے عزیز جان دوست کو تسلی دے سکتا 

دیکھوں مجھے اس کی خوشبوں محسوس ہورہی ہے وہ کیسے مر سکتی ہے ,پھر اچانک سالک کو کیا ہوا وہ دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ کر ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگا 

شاویز کو لگا جیسے کسی نے اس کے کلیجے پر ہاتھ ڈال دیا ہو 

سالک ہر چیز سے بےنیاز ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا سالک کو اس طرح زاروقطار روتے ہوۓ دیکھ کر شاویز کو لگا کسی نے نشتر سے اس کا بھی دل چیر کر رکھ دیا ہو,  

پورے کمرا سالک کی کرب ناک چیخوں سے گونج رہا تھا 

شاویز دکھ سے اپنے جان سے پیارے دوست کو یوں دیکھ رہا تھا 

یہ تو وہ سالک ایوان لگ ہی نہیں جو ہر بڑا سے بڑے درد کو بھی  ہنس کر سہہ جاتا تھا

سالک ایوان جس پر ساری لڑکیاں مرتی تھی,  پر اس کے دل میں تو ایک ہی بستی تھی 

جس کہ جانے کہ دکھ میں سالک کی یہ حالت ہو گی تھی,  

شاویز نے کرب سے سالک کو روتا تڑپتا بلکتا دیکھ کر سوچ رہا تھا 

سالک اٹھو میرے بھائی لو یہ دودھ پیوں شاباش , شاویز نے زبردستی سالک کو دودھ پلایا اور آرام سے اٹھایا , بیڈ پر لیٹایا 

وہ۔۔ وہ ۔۔ زندہ ۔۔۔ ز ۔۔ ن۔۔دہ 

سالک بڑبڑاتا ہوا  ہوش وحواس کی دنیا سے بیگانا ہو گیا,  

شاویز نے شکر کا کلمہ پڑھا وہ سالک کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتاتھا

Post a Comment

0 Comments