Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan By Gohar Arshad Second Last Episode 13 - Daily Novels

ناول: عشقِ یزداں

قسط:13

امی کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی۔اک عورت کو سکون کیوں کر حاصل ہو سکتے ہے جس کا مجازی خدا اس سے دور چلا جائے۔اور دور بھی ایسا کے اس کے لوٹ کر آنا ناممکن ہو۔اس کے سر کا اس کے دکھ درد کا ساتھی.لیکن اللہ رب العزت کی شان دیکھے کہ وہ کیسے کیسے انعامات سے نوازتا ہے انسان کو۔۔۔۔۔۔۔ہمارے استاد اک دن کلاس میں آئے۔تو کچھ بچے ان سے یہ گلہ کرنے لگے کہ سر ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ہمیں چیزیں بھول جاتی ہیں آپ ہی بتائیں ہم کیا کریں۔ان کا جواب سنئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا یہ کہنا تھا کہ عزیز طلباء بھول جانا اللہ پاک کی اک خاص نعمت ہے۔

کچھ بچے ہنسانا شروع ہو گئے اور ان کے درمیان میں اک بچے نے طنزیہ انداز میں پوچھ 

سر بھول جانا نعمت کیسا ہو سکتا ہے اور آپ کو پتہ ہے ہم کتنی محنت سے کوئی بھی چیز یاد کرتے ہیں تو وہ ہمیں اک دو دن تک تو یاد رہتی ہے لیکن پھر جلد ہی ہم اسے بھول جاتے ہیں۔ایسا کیونکر ہوتا ہے؟؟؟

استاد پھر استاد ہوتا ہے وہ جب تک بولتا رہا سر اس کی بات کو بغور سنتے رہے اور پھر کچھ خاموشی کے بعد ہم سب سے مخاطب ہوئے۔کہنے لگے بچوں آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ آپ اتنی محنت کرکے کوئی چیز یاد کرتے ہیں تو وہ آپ کو بھول جاتی ہے آپ یہ چاہتے ہو کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔لیکن آپ اس بات سے آگاہ نہیں ہو کہ وہ چیز جو آپ نے یاد کی تو آپ کو بھول گئی۔وہ دوبارہ اک بار دیکھنے کے بعد یاد آجاتی ہے مکمل۔۔۔۔۔۔۔مگر آپ کو پتہ ہے انسان کی زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے کچھ واقعات اگر انسان نہ بھولے تو اس انسان کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔۔۔۔اس کی سب سے بڑی مثال آپ کا کوئی عزیز رشتےدار جو آپ کے دل کے بہت قریب ہو آپ کے والدین جب اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو انسان کی زندگی آدھے سے زیادہ وہی ختم ہو جاتی ہے۔لیکن قانون قدرت اٹل ہے۔وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ انسان کو صبر بھی عطا کرتا ہے اور اس کے ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔تو وہ زندگی کو آگے لے کر چلتا ہے۔ورنہ وہ غم اس کو نہ بھولے تو وہ خودکشی ہی کر لے۔

سمجھ گیا سر بہت بہت شکریہ آپ نے بہت بہتر انداز میں اس کی تشریح کی۔

ہم والد کی ڈیڈ باڈی کو لے کر گاؤں آگئے۔ان کے کفن دفن کے بعد شام کے وقت جب ساری چیزوں سے آزاد ہوا تو خیال آیا کہ او مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی اب کیا کروں میں نے تو شفق کو بتایا ہی نہیں۔

کیا پتہ وہ کس حال میں ہو گئی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کے لیے اپنے گھر میں بھی جگہ کم پڑ جاتی ہے۔اور شفق کی طبعیت کو میں جانتا تھا کہ وہ موت کو گلے تو لگا سکتی ہے لیکن کبھی بھی اپنی خودداری کو ٹھیس نہیں پہنچنے دے گی۔اب میرا جی بہت گھبرا رہا تھا کہ آخر کروں تو کروں کیا بس سٹیشن چلوں تو کوئی فائدہ نہیں ہے وہ صبح فجر کے وقت گھر سے نکلی ہو گئی تو اب تک انتظار کرنا ناممکن ہے۔اس کے ساتھ کچھ غلط نہ ہوگیا ہو۔لیکن تھوڑا سا اطمینان اس لیے تھا کہ اس جیسی لڑکی کے ساتھ رب غلط نہیں ہونے دے سکتا رات کے آٹھ بجے تھے اور اس بس سٹاپ تک 1گھنٹہ لگتا تھا۔اب دل اس بات پر بھی شرمندہ تھا کہ اس کو آگاہ کر دینا چاہیے تھا مجھے 

لیکن میں کیا کرتا ابو کی وفات کا سن کر میرے ہوش و حواس بالکل اڑ گئے۔غلطی تو سراسر میری ہے لیکن کیا کروں پھر خیال آیا کہ اس کو کال کر کے دیکھتا ہوں شاید کے کوئی حل نکل آئے۔کوئی پندرہ منٹ تک کالیں کرتا رہا لیکن موبائل مکمل بند تھا۔اب اندر ہی اندر رب سے یہ دعا کر رہا تھا کہ اے میرے کریم رب اس کی حفاظت کرنا۔

دن کا سورج طلوع ہونے شروع ہو گیا تھا بس سٹاپ پر اسے 1 گھنٹہ ہو چکا تھا۔اس کے دماغ میں طرح طرح کے وسوسے جنم لے رہے تھے۔شاید اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہ ہوگیا ہو۔تین گھنٹے تک مسلسل انتظار کے بعد اس کو لگنے لگا کہ وہ نہیں آئے گا۔اس نے کہا تھا پہلی بس 5:30 جاتی ہے تو ابھی وقت سات سے اوپر ہو گیا ہے ابھی تک تو کئی 4 بس جا چکی ہوں گی۔اس نے آنا ہوتا تو آچکا ہوتا؟؟اتنا وقت کہاں لگتا ہے اور اس کو نہیں پتہ کہ اکیلی لڑکی کدھر جائے گی اس کے بھروسے پر سب کچھ چھوڑ کر آئی ہوئی ہے ۔اور اس پوائنٹ پر آکر اکثر لڑکیاں خودکشی کر لیتی ہیں۔کچھ کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر غلیظ لوگ ان کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں توبہ 

ان کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے والی لڑکی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔اس کو آپ جیسے چاہے استعمال کرسکتے ہیں۔کبھی اس کو باندی بنا کر رکھا جاتا ہے تو کئی ان کو چند پیسوں کے لیے درد و اذیت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔اور ایسا ہونا بھی چاہیے اس نے غلطی کی ہے تو اس کو سزا ملنی بھی چاہیے۔ان خیالات میں گم ہی تھی کہ آپ کا آنا ہوگیا وہاں پر۔آپ نے مجھے دیکھ لیا لیکن مجھے تب پتہ چلا جب آپ میرے سامنے موجود تھے۔اگر مجھے پہلے اس بات کا اندازہ ہو جاتا تو شاید میں ادھر ادھر ہوجاتی تو آج اس طرح صحیح سلامت نہ ہوتی۔آپ نے میرے پاس آکر پوچھا بیٹا شفق کہاں جا رہی ہو اتنی سویرا سویرا اور جس سٹاپ پر تم موجود ہو وہ جس گاؤں میں جاتی ہے وہاں تو کوئی تمہارا اپنا نہیں ہے۔

میرے دل میں خیال آیا کہ آپ سے کہوں جو اپنا تھا وہ آیا ہی نہیں۔میں کافی دیر سے وہاں موجود تھی اب میرا دل بہت گھبرا رہا تھا کہ کیا کرو،کدھر جاؤ 

ان کی یہ بات کرنا تھی کہ میں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔اپ میرے والد کی طرح ہیں۔

یہ بیگ لے کر کہاں جا رہی ہو بیٹا کچھ کھل کر بتاؤں تم جانتی ہو تمہارے والد اور میں اچھے دوست ہیں۔

چلوں باقی باتیں بعد میں ہوں گی میں نے ناشتہ نہیں کیا آج گھر سے جلدی آو ادھر ہوٹل پر؟؟؟

میرے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ مجھے ہوٹل پر لے گئے وہ پر ناشتے کے دروان میں نے آپ کو کچھ مختصر بتا دیا تھا۔اور جس بات پر میں نے زور دیا تھا وہ یہ تھی کہ میرے گھر والوں کو اس کی خبر نہ دیں تو آپ کی بات مانوں گی اور آپ کے گھر چلوں گی۔اور پھر آپ کے گھر آگئی۔اس سے آگے آپ کے سامنے ہوں۔باتوں باتوں میں بہت وقت ہوگیا کھانا بھی تمہاری کہانی کے چکر میں رہ گیا اب گھر چل کر ہی کھائے گئے۔اور ابو میں اس بات سے خوش ہوں کہ آپ نے میرے والد سے کبھی بھی ذکر نہیں کیا۔اللہ پاک آپ کو اس کی جزا دے۔۔۔۔۔میں اک عام سی ہاری ہوئی لڑکی کا آپ نے اتنا خیال رکھا۔میری اگر رب نے سن لی تو یہ دعا کروں گی آپ سب کے لیے کہ اللہ دونوں جہاں اچھے کریں آپ سب کے؟؟

اچھا باتیں اب بہت ہوگئی گھر چلتے ہیں سامان سمیٹ لو۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن بیٹا اگر برا نہ مانو تو اک بات کہوں 

شفق آنسو کو صاف کرتے ہوئے ابو کی جانب متوجہ ہوئی۔یہ آنسو شاید خوشی کے آنسو تھا کہ اس کی سب حماقتوں کے باوجود رب کائنات نے اس کو ذلت سے بچائے رکھا۔

وہ ابو سے گویا ہوئی۔۔۔۔جی جی۔ آپ بولیں آپ مجھے شرمندہ کررہے ہیں۔

اچھا تو بیٹا میں چاہ رہا تھا دو تین سال کا عرصہ گزار چکا ہے اب تمہارے ابو وہ سب باتیں بھول گئے ہوں گئے تو تم کہو تو میں ان سے بات کروں کہ تم ہمارے پاس ہو کیونکہ پچھلے دنوں وہ مجھے ملے تو کافی بیمار لگ رہے تھے۔میں نے وجہ ہوچھی تو وہ کچھ نہ بولے لیکن تمہاری امی رونا شروع ہوگئی اور کہنے لگی کہ بھائی آج تک میں چپ اس لیے تھی کہ کئی بدنامی ہمارا مقدر نہ بن جائے اسی خوف سے ہم پولیس اسٹیشن بھی نہیں گئے کہ بیٹی کو تو ہم پہلے کھو چکے ہیں۔ کئی تو عزت بچی ہے وہ بھی نہ چلی جائے۔انھوں نے تمہاری زندگی کی بچپن سے لے کر اب تک ساری سٹوری بیان کی او ر تمہارے گھر سے بھاگنے کی  بات کرتے ہوئے تڑپ گئی۔کہنے لگی کہ بھائی ان کی طبعیت خراب ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔وہ اپنی بیٹی کی جدائی برداشت نہیں کرپائے۔

بھائی آپ کو پتہ ہے جب شفق چھوٹی تھی تو اکثر وہ اس کو دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ میں کبھی بھی اس کی شادی نہیں کروں گا یہ میری بیٹی ہمیشہ میرے سامنے رہے گی۔

اب اس کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں۔لوگوں سے بہت پتہ کیا پر نہ اس لڑکے کا پتہ چلا اور نہ اس کا 

اب زندگی بالکل ہی اداسی بن کر رہ گئی ہے۔کیا کروں میں آپ بتائے۔اک ہفتہ ہوگیا کام پر بھی نہیں گئے؟؟؟

وہ کی یہ حالت دیکھ کر مجھے آنسو آگئے دل کیا کہ ان کو بتا دوں کہ تم ہمارے پاس ہو لیکن وہ وعدہ یاد آگیا کہ تمہاری کسی کو کوئی خبر نہیں دوں گا۔پلیز اب مجھے اجازت دے دو کہ میں ان کو بتا دوں ان کی یہ حالت مجھ سے اور نہیں دیکھی جاتی۔۔۔۔۔۔۔پلیز بیٹا میرا لیے یہ چھوٹا سا کام کر دو مجھے اس کی اجازت دے دو میں تمہارا زندگی بھر احسان مند رہوں گا۔

شفق کے چہرہ کا رنگ لال ہو گیا کیا ہوا ہے ان کو مجھے بتائے ناں ؟؟؟؟؟

میری امی کیسی ہیں اور بھائی؟؟

بیٹا یہ کیسے کہا دو وہ ٹھیک ہیں جب کہ تم جانتی ہو وہ تمہارے بغیر اچھے کیسے ہوسکتے ہیں۔پلیز بیٹا ان کو یہ بتانے دے دو کہ تم زندہ ہو صحیح سلامت ہو ہمارے پاس بےشک اس کے بعد تم ہمارے ساتھ ہی رہنا اور تم جانتی ہو بیٹا ان سے میرا تعلق کیسا ہے جب ان کو یہ پتہ چلے گا تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے خاص کرکے تمہارے ابو۔۔۔۔۔۔۔اور بیٹا ابھی تک وہ اس الجھن میں ہیں کی تمہارے ساتھ کچھ غلط نہ ہوگیا ہو۔اور ان کو یہ یقین بھی نہیں ہے کہ تم زندہ ہو 

شفق نے مسلسل بہنے والے آنسو کے دریا کو صاف کر کے کہا آپ نے مجھ سے پہلے کبھی ذکر کیوں نہیں کیا کیا مجھے ان سے محبت نہیں ہے؟؟کیا وہ زیادہ کرتے ہیں،،مجھے ان کی فکر نہیں ہے۔آپ آج رات کو ہی ان کو فون کر کے بتا دیں کل صبح ہم گھر چلے گئے۔

اف اللہ تم نے بیٹا میری جان ہی نکال دی تھی کہ اگر تم انکار کرو گی تو میں کیا کروں گا۔شکر ہے تم مان گئی میں رات کو فون پر ان کو بتا دوں گا۔تمہارے ابو کی جان میں جان آجائے گی تم دیکھ لینا اب وہ دو تین دن میں دوبارہ کام پر جانا شروع ہو جائے گے۔

اچھا تو ابو اک بات میں بھی بولنا چاہتی ہوں اگر آپ انکار نہ کریں تو آپ بس سٹاپ والے واقعے کا ذکر ان سے نہ کیجیے گا۔اور اگر آپ اپنا فون مجھے دیں تو میں ندیم کو کال کرو آج تین سال کے بعد چیک کروں نمبر وہی ہے یا اس کے ساتھ اس کا نمبر بھی بدل گیا۔

ٹھیک ہے گھر پہنچ کر موبائل پہلے تمہیں دوں گا تم بات کر لینا بعد میں تمہارے ابو سے بات کر لوں گا۔

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments