Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Jaan By Ana Shah Episode 7 - Daily Novels

ناول جان 

ناول نگارانا شاھ

قسط نمبر 7


وہ صبح سے ہی جلے پیر کی بلی کی طرح اپنے کمرے میں ہی واک کر رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرےاس فون کال نے اس کا سکھ چین وین جو بھی تھا سب غائب کر رکھا تھا وجہ اس نمبر سے آنے والے ایس ایم ایس بھی تھےجو انتہائی رومانٹک تھے ۔۔۔ جنہیں دیکھ کر اس کا دماغ خراب ہورہا تھا  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ تصور میں سوچ رہی تھی کہ وہ شخص اس کے سامنے ہے اور وہ اسے مکھی بنا کر اڑا چکی ہے اور اب تو رات سےکال کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔۔۔۔وہ ایک ایڈوانس لڑکی کی پر ایک بیٹی اس نے اپنی مدت پوری کرکے اپنے ماں باپ کو شرمندہ نہیں کیا تھا اب وہ سوچ رہی تھی اس کال والے  سے کیسے جان چھڑائی جائے ایک خیال ذہن میں آتے ہی وہ پرسکون ہو گئی اور یونی کی تیاری کرنے لگی آج اس کا بہت اہم لیکچر تھاوہ  یونی میں انیلا کو سب کچھ بتانے والی تھی وہی اس کا کوئی حل بتا سکتی تھی  ُ۔ ۔۔۔۔۔۔ُ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼 

دامیر شاہ آفس میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا وہ دو دن پہلے ہی گاؤں سے آیا تھا اور اپنی ماں کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسے اس کی منگ چاہیے وہ آفس سے نکل رہا تھا جب اس کے موبائل پر حویلی سے کال آگئی تھی ۔۔۔۔

"السلام علیکم"

"کیسے ہو ؟ بیٹا!" دوسری طرف اماں بی تھیں"میں اے ون!  آپ سنائیں کیسی ہیں؟" اور بابا صاحب کیسے ہیں!" دامیر کو حیرت ہوئی ابھی دو دن پہلے ہی تو وہ آیا تھا نہ جانے آج انہوں نے یہ زحمت کیوں کر ڈالی ہے🤔 "میں ٹھیک ہوں!" بس تم سے بات کرنے کو دل کر رہا تھا تم اس وقت کیا کر رہے ہو !اماں بی نے پوچھا!"" آفس ٹائمنگ ختم ہونے کے بعد گھر جا رہا ہوں"" تبھی میں کہوں اتنا شور کیوں ہے ڈرائیونگ کر رہے ہو ؟!"اماں بی نے اندازہ لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮💮"جی"

بزی ہوپھر تو تم سے بہت ضروری بات کرنی تھی جب گھر پہنچ جاؤ تو مجھ سے رابطہ کرنا "!!!!!!!!!!¡!!!!!!!!!!!"آپ ابھی کہیں جو کھنا ھے"۔ ۔۔دامیر کو تجسس ہوا ۔۔۔۔۔نہیں!! تم دھیان سے ڈرائیونگ کرو ایک وقت میں دو کام اچھے نہیں ہوتے گھر جاکر کال کرنا" اللہ حافظ!" کہتے ھوۓ کال بند کر دیں تو کچھ سوچتے ہوئے دا میر نے بھی موبائل اٹھا کر سامنے ڈیش بورڈ پر ڈال دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤ گھر آکر کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آیا تو ذہن اماں بئ کی طرف ہی تھا نجانے انہوں نے کیا ضروری بات کرنی تھی وہ اس سے پہلے تو انہوں نے بھی اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی تھی اس کا زہن الجھا ہوا تھا💥💥💥💥 دروازہ بند کر کے اس نے حویلی کا نمبرملایا """"""اسلام علیکم """""

دوسری طرف شاید کوئی ملازم تھی"" وعلیکم سلام""" ***امی جی کو بلاؤ!! کہنا دامیر کی شہر سے کال ہے""" جی !!ابھی بلاتی ہووہ فون ہولڈ پر رکھ کر چلی گئی  """ "اسلام علیکم" تین چار منٹ بعد اماں بی کی آواز سنائی دی تو وہ فورا ایکٹیو ہوا 💮💮💮💮"

وعلیکم السلام"

" گھر آگئے؟ کھانا کھا لیا؟" انہوں نے پوچھا تھا ۔۔۔۔

"!جی" 

"دیکھو بیٹا! تمہارے کہنے پر اور میری بھی یہی خواہش تھی میں نے اس سے بات کی ہے نفیس تو بالکل رضامند ہے اور کوئی اعتراض نہیں لیکن نفیسہ ذراپریشان ہوگئیں تھیں میں نے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس کا کہنا ہے کہ ایک تو امروزیہ پڑھ رہی ہے دوسرا اسے اس رشتے کا کچھ پتہ نہیں آپ ہمیں تھوڑا وقت دیں تاکہ میں اسے ذہنی طور پر تیار کر سکوں کچھ لا ابالی   طبیعت کی مالک ہے جب کہ دا میرایک سنجیدہ مزاج بندہ ہے ہم اماں بی نے ایک ہی سانس میں نفیسہ بیگم کی باتیں اس کے گوش گزارکر دیں۔ !!!!!!!!!!!!!!!!!!! یہی سن کر دامیرکےچہرے پر پر اسرار مسکراہٹ آئی تھی!!!

 اماں بی !!نفیس بیگم بھی مان جائیں گی "اور امروزیہ کو بھی ماننا پڑے گا :""

اس نے غصے سے کہا تھا !! اس کا جواب سن کراماں بی  کچھ پریشان ہو گئی تھیں۔۔۔ امروزیہ پوتے کی ضد بن گئی تھی ۔۔۔۔اس کے لہجے سے انہیں ایسا ہی لگا تھا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اماں بی نے فون رکھ دیا اور گہری سوچ کی پرچھائیاں ان کے چہرے پر چھائی ہوئی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼🌼


یہ ایک گودام تھا کرسی پر سردار بادشاہ انتہائی طیش کے عالم میں بیٹھا تھا اور سامنے اس کا خاص بندا رحم کی بھیک مانگ رہا تھا جسے اس نے مار مار کر بے حال کر دیا تھا وہ جرم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا 🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸🕸اس کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا پھر کیسے کیسےاس کا مال پولیس  کے ہاتھ لگ گیا تھا یہ سوچ کر وہ پاگل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

وہ ایک وحشی درندہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان لوگوں کے لئے جو گناہ گار تھے اس کی ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں تھی۔۔۔۔۔۔

 پر وہ اپنے دوستوں کا دوست تھا ۔۔۔۔۔۔۔

""سردار !مجھے نہیں پتہ کس نے ہماری خبر پولیس تک پہنچائیں اور ہمارا مال کیسے پکڑا گیا""" اس کی بات سن کر سردار کو اور بھی طیش آگیا تو کسے خبر ہے کہ تمہارا کام تھا ہمارے کام میں غلطی کی گنجائش نہیں تم خود ہی  اپنی سزا چن لو! !!!

" ورنہ جو سزا میں دوں گا وہ بھیا نک ہوگی ****

یہ سننا تھا کہ وہ تھر تھر کانپنے لگا!!! 

اب اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا جو سزا سردار بادشاہ نے اسے دینی تھی وہ بہت دہشتنا ک تھی۔۔۔

 اس سے بہتر تھا کہ وہ خود ہی اپنے آپ کو مار دیتا اس نے ہمت کر کے سامنے پڑے پستول سے اپنے سر کا نشانہ لیا اور ٹریگر دبا دیا۔۔۔۔۔۔

خون کے چھینٹے دور تک گلۓ یہ منظر دیکھ کر اس کے آدمی خوفذد ہ ھو گۓ ہو گئے یہ کوئی نیا منظر نہیں تھا غدار کی یہی سزا ہو سکتی تھی پر ہر دفعہ انسانیت کے ساتھ یہ سلوک ان کو ہلا دیتا تھا حالانکہ وہ خود منشیات سے کتنے ہی گھر اجاڑ چکے تھے کتنے ہی ماؤں کے بیٹےچھین چکے تھے لیکن جب بھی وہ منظر دیکھتے تھے تو وہ وحشت زدہ ہوجاتے تھے ۔""دامیر شاہ !!نے بہت تنگ کیا ہوا ہے ہم نے جو بندہ اس کے پاس بھیجا تھا اس نے اسے بھی گھاس نہیں ڈالی اور کسی طرح بھی ہماری باتوں میں نہیں آیا پتا کرو اس کی فیملی میں کون کون ہے اس کی کمزوریاں بھی ڈھونڈو! !!! میں اس کو وہ چوٹ پہنچاؤ گا کہ وہ یاد رکھیے گا۔۔۔۔

سردار بادشاہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments