Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak By Fozia Kanwal Episode 16 - Daily Novels

”لاحاصل سے حاصل تک“

ناول نگار۔۔فوزیہ کنول۔

 قسط: 16


”تم ایک ناکام عاشق ہو شاہجہان۔۔۔۔“

آپ میری محبت کی توہین کر رہے ہیں۔۔۔“

ارے۔۔۔“ جاٶ جاٶ تم آٸے بڑے محبت کے دیوتا۔۔۔“

بس جو کہا ہے یاد رکھنا کہ کنول صرف اور صرف میری ہے۔۔۔“

      ”کنول کو اپنے نام سے منسوب کر کے آپ میری محبت کو نا پاک نہ ہی کریں تو بہتر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ساری حدیں پار کر کے...۔۔“

کیا ساری حدیں پار کر کے...۔۔۔“ کیا۔۔۔کیا۔۔۔بولو کیا کرو گے تم..۔.۔؟

ہاں کیا کرو گے...؟

 مارو گے مجھے؟ 

جان لے لو گے میری؟ 

ہاتھ اٹھاٶ گے مجھ پر؟

 سالار نے شاہجہان کی جنونی محبت جانتے ہوٸے بھی اس پر اپنی تلخ باتوں کے تازیانے برساۓ۔

آپ نے ایک بار بھی کنول کا نام اپنی زبان سے لیا تو میں آپے سے باہر ہو جاٶں گا، کہے دیتا ہوں میں آپ سے...“                         

                                                      ” میں بھی تمہیں بارہا یہی بات کہہ چکا ہوں کہ شاہجہان کنول صرف میری ہے اور میری ہی ڈولی میں بیٹھ کر گھر آٸے گی۔ سالار نے ایک بار پھر شاہجہان کے سُلگتے دل کو ہوا دی۔

بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

 شاہجہان بجلی کی طرح کڑکا ۔۔۔۔“

اور آگے بڑھ کر سالار کا گریبان پکڑنے ہی والا تھا کہ کسی کے قدموں چاپ سناٸی دی،مگر انکو کس کی پروا تھی“ارے تم ہوتے کون ہو یہ فیصلہ کرنے والے۔۔۔۔۔؟ 

کنول تمہاری ہے میں ابھی جا کر ابو اور خالو خالہ سے بات کرتا ہوں۔

ارے تمہاری اوقات ہی کیا ہے میرے سامنے۔۔۔۔؟ میرے پاس اچھا گھر ہے، گاڑی ہے، اچھی جاب ہے، بنک بیلنس ہے، اچھی پرسنیلٹی ہے۔ آخر وہ کیونکر مجھے انکار کریں گے اور تمہارے پاس کیا ہے؟ پڑھ لکھ کر بھی آوارہ ۔۔۔“ سارے خاندان میں تمہیں کوٸی منہ نہیں لگاتا۔ بڑا بھاٸی سمجھ کر ہمیشہ تمہاری عزت کی مگر آج مجھے پتا چلا کہ تم اس عزت کے قابل نہ تھے۔۔۔۔۔“

شاہجہان اپنے جنون میں بولتا چلا گیا۔ اس کا غصہ افق چھو رہا تھا، آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

 ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی کے ابھی کچھ انہونی ہو جاٸے گی۔ 

میری جو مرضی میں کروں۔ سالار کا غصہ بھی آسمان سے باتیں کر رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی کے ابھی ایک دوسرے کو قتل کر دیں گے۔ 

دونوں کی اونچی آواز پورے گھر میں پھیل گٸی انہیں اس بات کا علم نہ تھا خالہ بیگم جو فریج سے پانی پینے آٸی اور نجانے کب سے ان دونوں کی یہ لڑاٸی انجواٸے کر رہی تھی...“

 جو اسی انتظار میں تھی کب کوٸی خطرناک سین بنے اور اسے شور مچانے کا موقع ملے۔

 خالہ بیگم سالار اور شاہجہان کی خالہ بھی لگتی تھی اور تاٸی ماں بھی۔

 جیسے ہی شاہجہان کا ہاتھ سالار کے گریباں تک پہنچا تو خالہ بیگم کی آواز بھی پورے گھر میں گونج گونج اٹھی۔ ارے غضب ہو گیا، غضب ہو گیا، کیا یہی دیکھنا باقی تھا اب، کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں اس گھر میں۔۔۔“

 ارے رضا بھاٸی کہاں گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں ۔۔۔۔“؟یہاں تمہارے بیٹے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوٸے ہیں۔۔۔۔؟

 یہ لڑکی کنول میرے بچوں کی جان لے کر چھوڑے گی،۔“ خالہ بیگم نے کنول کو بدنام کرنے میں کوٸی کسر نہ چھوڑی، باتوں باتوں میں انہوں نے سارے گھر والوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں بھاٸیوں کے جھگڑے کی وجہ کنول ہے۔۔۔۔۔“

ارے شرم نہیں آتی تم دونوں کو۔۔۔؟ 

عقل بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے۔۔۔۔“

کم از کم گھر والوں کی عزت کا ہی خیال کر لیا ہوتا۔

آپ چپ رہیں خالہ بیگم سالار سُلگ کر بولا۔

کس قدر بدتمیز ہو، جو منہ میں آتا ہے بولتے چلے جاتے ہو۔

شاہجہان تمہیں تو شرم آنی چاہیے تھی۔۔۔۔۔۔“ماں نے بڑے مان سے شاہجہان کو کہا۔۔۔۔۔“

شاہجہان نے اپنے ضبط پہ قابو رکھا اور تمام تر _تواناٸیوں کو مثبت رخ میں رکھنے کی کوشش کی مگر وہ اس شخص کے اس لہجے کا کیا کرتا جو اس گھڑی اسے طیش دلا رہا تھا۔۔۔۔؟

 یہ وقتی ہتھیار ڈالنے والی بات تھی۔۔۔۔“

شاہجہان کے دماغ میں یہاں سے وہاں تک گھنٹیاں بج رہی تھیں۔۔۔۔“

 سب اسی کا ضبط آزما رہے تھے۔۔۔۔“

        ”رضا بھاٸی میں کہے دیتی ہوں کچھ کریں ورنہ اس گھر میں ضرور کوٸی انہونی ہو جاٸے گی، یہ لڑکی کنول ضرور کسی نہ کسی کی جان  لے کر رہے گی۔ خالہ بیگم جلتی پہ تیل ڈالنے کا کوٸی موقع بھی ہاتھ سے سے جانے نہ دے رہی تھیں۔

اتنے میں بڑے بابا نے کمرے کی دہلیز پر قدم رکھا تو چاروں طرف خاموشی سی چھا گٸی۔ 

بڑے پاپا جیسے ہی گھر میں قدم رکھتے تھے پورے گھر میں ایک سکوت سا چھا جاتا تھا۔

 سب بچوں بڑوں میں ایک ڈر تھا ان کا۔ 

جیسے ہی بڑے پاپا نے اندر قدم رکھا تو سب کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گٸیں اور سانسوں کی رفتار بڑھنے لگی۔

تم دونوں مجھے آ کر صبح میرے کمرے میں ملو۔

بڑے پاپا نے سالار اور شاہجہان کی طرف اشارا کرتے ہوۓ  کہا۔۔۔۔“

بڑے پاپا کے سامنے کوٸی بولنے کی ہمت نہ رکھتا تھا اس لیے سب خاموش رہے۔

صبح ہوتے ہی شاہجہان بڑے پاپا کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ اپنے اندر بڑے پاپا سے بات کرنے کی ہمت پیدا کر چکا تھا، وہ جانتا تھا بڑے پاپا اس کا ضرور ساتھ دیں گے کیونکہ بڑے پاپا اس سے بہت پیار کرتے تھے۔

جب بڑے پاپا کے کمرے سے گفتگو کی آواز سنی تو شاہجہان نے جلدی سے بڑے پاپا کا پسندیدہ پرفیوم لگایا اور بڑے پاپا کے کمرے میں جا ٹپکا۔

دروازہ اندر سے بند تھا، بڑے پاپا دروازہ کھولیں، پورے دس منٹ بعد آنا شاہجہان۔ شاہجہان نے حیرانی کے عالم میں قدم پیچھے کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔“


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

Post a Comment

0 Comments