Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak By Fozia Kanwal Episode 17

ناوللاحاصل سے حاصل تک

ناول نگار۔۔فوزیہ کنول

*قسط# 17


      "پیچھے کیطرف قدم اٹھانا چاہا ہی تھا کہ دروازہ کے پار سے کسی کے باتیں کرنے کی آواز سنی۔

 شاہجہان کے قدموں نے اسے وہی رک جانے کے لیے مجبور کیا۔

وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر بڑھ نہ سکا۔

 اس نے سنا کہ بڑے پاپا سالار سے کہہ رہے تھے کہ میں شاہجہان کو سمجھا لوں گا، وہ میری بات کبھی نہیں ٹالے گا اور انہوں نے سالار سے وعدہ بھی کیا کہ وہ سالار اور کنول کے رشتے کے لیے ابو سے بات بھی کریں گے۔

 یہ سننا تھا کہ شاہجہان کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ 

اس کی آخری امید بڑے پاپا تھے جن پر اسے بے حد مان تھا،آج وہ امید بھی جاتی رہی تھی، آج وہ مان بھی ٹوٹ گیا تھا۔ 

شاہجہان اپنے آپ کو بے سہارا اور اکیلا محسوس کر رہا تھا، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوٸی بھی اسکا اپنا نہیں اپنا نہیں ہے۔ 

وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو سمجھا نہیں پا رہا تھا ۔

وہ اپنے وجود کو بکھرتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔

 اس کے دل سے بار بار یہی التجاٸیں اٹھ رہی تھیں کہ بس کنول اسکی ہوجائے۔

اس نے اپنے بھاری وجود کو گھسیٹتے ہوٸے اپنے کمرے میں پڑی کرسی پر لا پھینکا۔ 

وہ سوچوں کے گہرے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ اس کی آس بندھی تھی تو اب صرف کنول پر کہ شاید اس کے دل کے کسی کونے میں اس کے لیے محبت ہو اور وہ اسے اپنا لے۔

جی اٹھا تھا وہ یہی سوچ کر ۔

آخر کار اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ صبح کنول کے نام ایک خط لکھے گا۔ 

اور عاشی باجی کی شادی پر جانا تو تھا ہی وہ خط کنول کو دے دے گا اور اس کا جواب لے کر ہی واپس لوٹے گا۔

اس نے اپنے دل میں تہیہ کر لیا تھا۔

وہ تمام رات جذبوں کے جال بنتا رہا۔

کنول کے لیے تعریفی الفاظ ڈھونڈتا رہا۔

میری کنول ہٹ کر ہے تمام دنیا سے۔

تم میرے جسم کا ایک ٹکرا ہو کنول۔

میری روح کا حصہ ہو۔ تم۔

تم بن میری زندگی بے رنگ ہے کنول۔

میں نہیں جی سکوں گا تمہارے بغیر۔

مجھے اپنی محبت کی آغوش میں لے لو۔

شاہجہان تم بن ادھورا ہے کنول۔


(میرے بے جان لفظوں میں)

مرے بے جان لفظوں میں 

چھپے ہیں  جابجا آنسو 

اداسی لفظ میں پنہاں

ہر اک نقطے میں وحشت ہے

مری بکھری ہوئی حالت 

بصورت زیر دکھتی ہے

زبر میں درد پوشیدہ 

تمھیں شاید نظر آئے

کہیں سلجھا،

 کہیں الجھا،

 کہیں بوجھا،

 کہیں جانا

شفق رنگ شام میں یا پھر 

سحر کی نور کرنوں میں 

مرے بے وزن شعروں میں

مری تحریر ، قصہ اور 

سطر میں 

مری یہ نظم بھی میری طرح آزاد  ہے لیکن 

مقید ہے تمھارے  تصور سے 

تمھیں محسوس کرتا ہوں 

کے جیسے ہو فضاؤں میں کوئی آزاد پنچھی ہوں 

نفس کے تار میں لپٹی ہوئی زیست 

محبت میں ملی جنبش 

الگ ہی لطف دیتی ہے 

جو ملتی ہے بڑی قسمت 

سے ہر اک کو 

نہیں ملتی

شکستہ رنگ یوں چھوڑے

 کہ یہ تصویر جاں اب نامکمل ہے

 ادھوری ہے۔

شاہجہان نے خط لکھ کر اپنے تکیے کے سینے میں چھپا دیا اور لگا سنہرے سپنے سجانے۔

کنول تم کیسے بچپن میں میرا نام مہندی سے اپنے ہاتھوں پہ لکھتی تھی.. ؟

کیسے میرا ساتھ ہی پسند کرتی تھی۔

 کسی اور کو منہ  نہ لگاتی تھی تم۔

۔۔۔۔ کاش آج بھی تم میرا ہاتھ پسند کر لو۔

۔ مجھے اپنا لو۔۔۔۔۔"

 سب میں سے مجھے چن لو۔۔۔"

 تو میری محبت کا مان رہ جائے۔ ۔۔۔"

میرے پیار کی جیت ہو جائے۔۔۔۔"


بدن کی رمز سمجھ ' رُوح کا اشارہ سمجھ

مجھے سمجھ ' نہ سمجھ ' دُکھ مِرا خدا را سمجھ


تجھے ہم اور کسی کا نہ ہونے دیں گے کبھی

تُو بھا گیا ہے ہمیں ' خود کو اب ہمارا سمجھ


جو تِیرگی میں تجھے کچھ دِکھائی دیتا نہیں 

سمجھ میں آئے تو اِس کو بھی اک نظارہ سمجھ


نہیں تو وقت ہی سمجھائے گا تجھے اک دن

مَیں چاہتا ہوں ' مِری بات کو دُو بارہ سمجھ


کہ مَیں تو اپنے بھی کچھ کام آ نہیں پایا

تجھے یہ کس نے کہا تھا ' مجھے سہارا سمجھ


یہ دل سے آنکھ تک آیا ہُوا جو آنسو ہے

یہ تیرگی میں چمک جائے تو ستارہ سمجھ


یہ کار گاہِ طلِسمات ہے ' یہاں سید !

خسارہ نفع سمجھ ' نفع کو خسارہ سمجھ


وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کہ دروازے پر زور دار دستک نے اسے اس خیالوی دنیا سے کھینچ باہر نکالا۔

سالار بھیا آپ۔۔۔۔"

اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اچھا بولنے کی کوشش کی، خیریت تھی بھیا؟

ہاں خیریت ہی تھی، تم سے پوچھنا تھا کہ صبح تم عاشی باجی کی شادی پر تو جا رہے ہو ناں۔۔۔۔؟

سالار نے طنزیہ کہا۔۔۔۔؟

سالار کو 100% یقین تھا کہ شاہجہان جانے سے انکار کرے گا۔..."

وہ ایک فاتح کی طرح سینہ چوڑا کیے کھڑا تھا۔۔۔"

جی بھیا کیوں نہیں ضرور جاٶں گا۔..."

اس نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔۔۔۔"

کیا----؟ 

سالار نے حیرانی کے عالم میں مڑ کر دیکھا اور شطانی ہنسی ہنسا۔۔۔۔"

یار بہت چپکو عاشق ہو۔۔۔۔"

کیا تم نے بڑے پاپا کا فیصلہ نہیں سنا۔۔۔؟

محبت فصیلوں کی محتاج نہیں ہوتی سالار بھیا۔

میں کنول کے منہ سے سننا چاہتا ہوں کہ وہ میرے لیے کیا سوچتی ہے۔۔۔۔"

 شاہجہان نے ایک سچا عاشق ہونے کا ثبوت دیا۔۔۔۔"

اچھا تو"

یوں کہو۔۔۔ناں"

 تم منہ کی کھانا چاہتے ہو...؟

 بے عزتی کروانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔؟

بھیا پلیز چلے جاٸیں یہاں سے اس پہلے کہ۔۔۔"

 شاہجہان کمزور پڑھ رہا تھا۔۔۔۔"

اشک اسکی آنکھوں سے جھر جھر بہنے لگے۔

وہ آج سالار سے مقابلے کے موڈ میں نہ تھا۔۔۔۔"

اس کے دل سے بار بار یہی صداٸیں آ رہی تھیں کہ یہی وہ شخص ہے جس نے تمہارے پیار پہ ڈاکہ ڈالا ہے مگر۔۔۔۔؟

یہ تمہارا بھیا نہیں تمہارا رقیب ہے۔۔۔۔"

 مگر شاہجہان مسلسل اپنے دل پر جبر کر رہا تھا اور اپنے دل کے خلاف جا کر اپنے لبوں پر چپ کے قفل لگاٸے ہوٸے تھا۔۔۔۔۔"

وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مزید اس آگ کو بھڑکاٸے جو خالہ بیگم اس گھر میں لگا چکی تھی اور دن بدن اسے بڑھاوا بھی دے رہی تھی۔۔۔۔"

مگر سالار مسلسل اس کے رستے زخموں پر نمک چھڑک رہا تھا۔۔۔۔"

آپ تو نہیں جاٸیں گے تو میں ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ شاہجہان نے یہ کہہ کر باہر مین گیٹ کا رخ کیا۔.."

سالار ہنستا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔..."

شاہجہان گیٹ سے باہر نکلا اور سٹرک کنارے  پیدل چلنے لگا۔۔۔،"

سڑک کنارے نیلے آسمان تلے سوچوں کے گرداب میں پھنسا وہ اکیلا چلا جا رہا تھا۔۔۔"

 سڑک کے دونوں اطراف ٹریفک رواں دواں تھی۔

 گاڑیوں میں بیٹھے لوگ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے مگر وہ  اپنی لے میں چلا جا رہا تھا۔

وہ چپ چاپ چلتا جا رہا تھا۔

 منزل کا تعین تھا نہ کسی راستے کی خبر۔۔۔ "

وہ دیکھ رہا تھا تو صرف سامنے ایک قدم۔۔۔"

 تا دیر چلتے رہنے کی وجہ سے اسکے قدم لڑکھڑانے لگے تھے۔

 بار بار ذہن میں سالار کی باتیں گھوم رہی تھیں۔

 سالار کی چھبتی نظریں اور اس کی اشکوں سے لبریز آنکھیں آپس میں جنگ کر رہی تھیں۔

بڑے پاپا کی باتیں بھی بار بار اس کی سماعتوں  سے ٹکرا رہی تھیں۔ 

اس کے دماغ میں ایک جنگ چھڑ گٸی تھی۔ 

وہ پھنس گیا تھا اس گرداب میں۔

نہیں میرا کوٸی اپنا نہیں ہے...۔۔۔"

سب میرے دشمن ہیں کوٸی میرے ساتھ نہیں ہے۔۔۔"

زیادہ بولو نہیں بیٹا۔۔۔۔"

 میں ہوش میں آیا تو میرے خستہ حال وجود کو سنبھالے ایک صاحب کھڑے تھے۔۔۔۔"

میں کہاں ہوں۔۔۔۔؟ 

میں نے اپنے آپ کو سوچوں کے بھنور سے باہر نکالا۔

تم اب کیا محسوس کر رہے ہو۔۔۔۔؟

 تم ہمیں سڑک کنارے زخمی حالت میں ملے شاید کوٸی گاڑی مار کر نکل گیا بے حس۔۔۔۔"


جاری ہے۔۔۔۔۔"

Post a Comment

0 Comments