Header Ads Widget

Responsive Advertisement

La Hasil Se Hasil Tak By Fozia Kanwal Episode 18

ناول#لاحاصل سے حاصل تک۔

ناول نگار۔۔فوزیہ کنول

قسط#18

          "اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا بیٹا" ان کا لہجہ دھیما اور میٹھا تھا..."

انکل یہ نمبر ملا کر میرے گھر والوں کو اس ایکسیڈنٹ کی اطلاع کردیں۔۔۔۔"

،شاہجہان نے بہت سی ہمتیں اکٹھی کر کے نمبر آگے بڑھایا۔

 ضرور بیٹا کیوں نہیں اس بھلے آدمی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دی۔

 ہیے۔۔۔۔،،"ہیلو...."

جی ۔۔۔کون۔۔۔۔؟

 شاہجہان کے بارے میں بات کرنی ہے, آپ کون ۔۔۔۔؟ 

 جی میں شاہجہان کا ابو بول رہا ہوں آپ مجھ سے بات کرسکتے ہیں۔

 جی شاہجہان کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔

 وہ ہمیں زخمی حالت میں ملا ہے۔

 اس وقت ہسپتال میں ہے ،اس نے آ پکو اطلاع دینے کا کہا ہے۔

     ،"ارے  بیگم شاہجہان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ اس وقت ہسپتال میں ہے...."

 ہائے اللہ"میرا بچہ "

کیا ہوا میرے بچے کو ۔۔۔؟

کیسا ہے وہ ۔۔۔؟

کہاں ہے وہ ۔۔۔۔؟

کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔۔۔؟

 بھئ اب یہ تو خدا ہی جانے۔۔۔"

جائیں گے تو معلوم ہوگا ناں۔۔۔"

 سب گھر والے عاشی باجی کی شادی کے لئے تیار ہو رہے تھے جیسے ہی شاہجہان کی خبر سنی تو سارے ہاسپیٹل کی طرف بھاگے۔

 بڑے پاپا،خالہ بیگم،مما اور پاپا۔

 ارے یہ کیا خبر سنا دی تم نے رضا بھائی یقین مانیں مجھے تو رات ہی کو اندیشہ ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی انہونی ہونے والی ہے۔ 

رات بھی سالار اور شاہجہان اسی بات کو لے کر جھگڑ  رہے تھے، اتنی پریشانی کے عالم میں بھی خالا بیگم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا تیر نشانے پر لگا یا۔

 خاموش رہو سب خدا کے لئے،اور دعا کرو کہ شاہجہان ٹھیک ہو۔

 جونہی ہسپتال کے کمرہ نمبر 102  کا دروازہ پار کیا تو شاہجہان کو ٹھیک پا کر سب کی جان میں جان آ گئی۔ ہائے کس کی نظر لگ گئی ہے میرے لال کو۔۔۔۔؟

 اور شاہجہان اتنی رات گئے باہر نکلنا کہاں کی عقلمندی ہے۔۔۔؟ماں نے آ گے بڑھ کر بیٹے کو سینے سے لگایا،پیشانی پہ بوڈی دیا۔

 شاہجہان کیوں پریشان کرتے ہو۔۔۔؟ بچگانہ حرکتیں چھوڑ دو شاہجہان۔۔۔۔"

ماں کی بات پر بڑے پاپا نے بھی اپنی رضامندی کی مہر ثبت کی۔

      " اللہ میرے بچے اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو کیا منہ دکھاتے ہم خاندان والوں کو کہ ایک لڑکی کی محبت کی  خاطر جان دے دی۔

  خالہ بیگم نے اپنے آرٹیفیشل ڈائیلاگ جھاڑے۔۔۔"

خدا نہ کرے بہنا، خدا نہ کرے،رضا صاحب بے ساختہ بول اٹھے ،اللہ نہ کرے کہ میرے بچوں کو کچھ ہو، دو ہی تو میرے بیٹے ہیں، میرے جینے کا واحد سہارا ہیں۔

شاہجہان ہم عائشہ کی شادی میں جا رہے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں واپس گھر پر چھوڑ  دوں"

بابا جان نے حکمیہ کہا۔۔۔۔"

 گھر پر بخشو بابا موجود ہیں وہ تمہارا خیال کریں گے ہم ایک گھنٹے تک واپس لوٹ آئیں گے، اب تم ہمارے ساتھ تو نہیں چل سکو گے تمھاری ٹانگ بری طرح فیکچر ہے لیکن ہم بہت جلد واپس آجائیں گے وہاں جانا بھی مجبوری ہے بیٹے۔

چلو سالار بیٹے"۔۔۔۔بابا جان نے سالار کو اپنے پیچھے آ نے کا اشارہ کیا۔

 بابا جان آپ چلیں میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔"

جلتے ہو تم مجھ سے۔۔۔۔"

حاسد ہو تم پورے۔۔۔۔"

          " وہ زور زور سے ہنسنے لگا"

 تم کوشش کرلو رکاوٹیں ڈالنے کی مگر آج ہم وہاں ضرور جائیں گے اور میری اور کنول کے ریشتے  کی بات بھی ہوکر رہے گی۔

یار میں تو تجھے چھوٹا سا منا سمجھتا ہوں، میں نے تو ابھی بازی کھیلنا شروع ہی نہیں کی، اور تم پتا نہیں کیا کیا کرتے پھر رہے ہو۔۔۔؟

 ویسے یار میں اتنا برا بھی نہیں ہوں' جو تم ہاتھ دھو کر میرے پیچھے ہی پڑ گئے ہو وہ پھر زور زور سے ہنسنے لگا.

 شاہجہان کا دل چاہا کہ اسے تہس نہس کر دے مگر وہ بے بس تھا۔۔۔۔"

مجھے تم سے یہ امید نہ تھی شاہجہان خیر۔۔۔۔"

 اس نے فخریہ کندھے اچکائے۔۔۔"

        "اور یہ کیا بچپن سے گلے میں سچے عشق کا طوق لٹکائے پھرتے ہو، خدا کے لیے اتار پھینکواب اسے۔

میچور بنو۔۔۔"

ادھر جاؤ۔۔۔"

عقل سے کام لو۔۔۔.,ابھی بھی وقت ہے شاہجہان۔۔۔"

 وہ بہت ہی ریئش انداز میں،اطمینان سے کھڑا  مسکرا رہا تھا۔۔۔"

سالار بھیا اک بات پوچھوں۔۔۔؟

    " آپکو میری حالت پر ذرا بھی ترس نہیں آتا کیا---؟

آپ کے سینے میں دل نہیں ہے کیا__؟

 آپ کے اندر انسانیت نہیں ہے کیا__؟

   " آپ کو میرے ٹوٹے ہوئے دل کی جھنکار سنائی نہیں دیتی کیا__؟

 آپ کو میرے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کی پکار بے چین نہیں کرتی  کیا__؟

۔۔۔" آپ کو میری بے یارومددگار آ ہیں اور پکاریں جھنجھوڑتی نہیں__؟

 وہ جذباتی انداز میں بولتا چلا جا رہا تھا ،کوئی نہ جانتا تھا کہ یہ ایک حسرت تھی یا خواہش جو شاہجہان کے سینے میں اس وقت ایک امید کی طرح پرورشِ پا رہی تھی۔

 _ارے خدا کے لیے بس کرو شاہجہان،تھک گیا ہوں میں تمہاری یہ روز روز کی کسی لیلیٰ سے بچھڑے ہوئے مجنوں کی رام کتھا سن سن کر۔۔۔۔۔"

سالار نے آنکھیں بند کرکے غصے سے ہاتھ جوڑ کر ماتھے پہ دھر لیے۔۔۔"

 "۔۔۔۔۔ اسی کا ہی بندوبست کرنے جا رہا ہوں آج، اگر ہو سکے تو اپنے بھائی کے لیے دعا ضرور کرنا اس نے فخریہ نگاہ اٹھا کر کہا اور کچھ گنگناتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

 یا اللہ اتنے خوبصورت چہرے پر کتنے زخم آ گئے ہیں۔ کیسے بگڑ گیا ہے یہ چہرہ۔

بہت تکلیف ہو رہی ہوگی نہ تمہیں شاہجہان۔۔۔؟

 شاہجہان اگر تم کہتے ہو تو میں یہاں تمہارے پاس رک سکتی ہوں۔

پلوشہ نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔

 سچے دوست  تو ساتھ نہ ہو کر بھی ساتھ ہوتے ہیں پلوشہ۔۔۔"

 وہ مدھم آواز میں بولا، تم جاؤ شادی پر سب کے ساتھ مگر پلوشہ تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا۔۔۔۔۔"

میرا یہ خط اور  گفٹ تمہیں کنول تک پہنچانا ہوگا اور خدارا خط کا جواب ضرور لے کے آنا میں انتظار کروں گا۔ یہ خط میں اسکو خود دینے والا تھا مگر تقدیر کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔۔۔"

پلوشا تم کرو گی ناں میرا یہ کام۔۔۔۔؟

 پلوشہ محبت سے چور دل لیے سر کو جھکائے ضبط کرنے میں لگی تھی ۔۔۔۔۔"


ایسے ٹوٹا ہے محبت کا بھرم ، آج نہ پوچھ

جھوٹے لگتے ہیں وفاؤں کے دھرم ، آج نہ پوچھ


اپنی اوقات سے بڑھ کر تری خواہش کی تھی

خود سے آنے لگی آنکھوں کو شرم ، آج نہ پوچھ


میں نے ہر باب میں لکھی تھی وفائیں تیری

آخری حرف پہ روتا ہے قلم ، آج نہ پوچھ


سر پہ سایا نہ زمین پاؤں میں چھوڑی تو نے

کیسے بھولوں گا تمہارے یہ کرم آج نہ پوچھ


میرے ہونٹوں پہ یہ خاموش سسکتے نوحے

اور آنکھوں میں ہیں اشکوں کے علم ، آج نہ پوچھ


جس نے انمول دعاؤں کے گہر رول دیے

کیسے روتا ہے وہ پتھر کا صنم ، آج نہ پوچھ


ڈھانپ رکھا تھا دعاؤں کی ردا سے میں نے

کیسے میلا ہوا چاہت کا حرم ، آج نہ پوچھ


آواز سرگوشی کی مانند تھی شاہجہان نے خط تکیے کی آغوش سے نکال کر پلوشہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔"

Post a Comment

0 Comments