Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat By Sidra Mohsin Episode 10

منقبت 

قسط #10 


کردار 

روحیل 

عافیہ

رافیعہ

پہلوان


کچھ وقت گزرا تو یسے نہ ہونے کی وجہ سے ان تینوں کو مشکلات پیش آنے لگیں لیکن پھر بھی انہوں نے غلط راستہ اختیار نہ کرنے کی قسم کھا لی تھی تو وہ کوئ عزت کا کام کر کے پیسے کمانا چاہتے تھے 

لیکن ۔۔۔ ان کے پاس ناچ گانے یا دل لبھانے کے علاوہ ہنر بھی کوئ نہ تھا ان کو ہمیشہ نزکت سیکھای گئ تھی محنت سیکھائ بھی کیوں جاتی ۔۔ کس کے وہم و گمان میں تھا کوئ یوں بھی ایسی زندگی کو خیر آباد کہ سکے گی جہاں مرد اپنی تمام تر دولت ان لڑکیوں کی زرا سی ادا پر لٹا دیتے ہیں اصولوں کو پاؤں تلے روند کر ان کی زلفوں کو سنوارت لطف اندوزی میں یوں مگن ہوتے ہیں مانو جیسے خرد مکمل حیاتی    خوشنما کلیوں میں بسر کرتی ہے 

اب جب مشکل آن پڑی تھی تو روحیل گھر سے باہر نکلتا ہے تاکہ کچھ کام کر سکے مگر کوئ بھی اس کو کام پر رکھنے کو تیار ہی نہ تھا نہ اس کو طریقہ تھا نہ ہی کوئ تجربہ۔۔۔

پہلوان بھی کہنے لگے تھے کراۓ کا لیکن کسی طرح منت سماجت کر کے وہ تینوں وت لے کیا کرتے تھے لیکن وقت نہیں گزر رہا تھا ۔۔۔ پریشانی میں مبتلا تھے لیکن اپنی بات پر قائم تھے تینوں ۔۔۔

ایک رات جب تینوں سو رہے تھے۔۔۔ رافیعہ گہری نیند میں خ پھولوں سے بھرے کمرے میں جہاں خوشبو بکھری ہوئ ہے ہلکی سی روشنی ہر ایک چیز کی خوبصورتی کو نکھار رہی ہے۔  ۔۔۔۔ کھڑکی سے چاند کی روشنی سنگھار میز پر پڑے فوٹو فریم پر پڑ رہی یے خوبصورت لباس زیب رن کیے رافیعہ اس فریم کو اٹھاتی یے تو اس کی اور عافیہ کی تصویر دیکھ کر وہ دھیمی سی مسکان لیے آنکھیں بند کئے اس تصویر کو چومتی ہے اور سینے سے لگاتی ہے 

اور پھر جب آنکھیں کھولتی ہے تو دیکھتی یے وہ فریم کرچی ہوا ہوتا یے وہ ایسا دیکھ کر بوکھلا جاتی یے کانپتے ہاتھوں سے اس فریم کو تیزی سے ٹیبل پر رکھ دیتی یے ۔۔۔ خوفزدہ رافیعہ گہری سانس لیتی کپکپاتے لبوں سے کچھ کہنے کی ناکام کوشش کرتی قدم پیچھے لے رہی ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔۔ اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے اور وہ اپنے آنسو صاف کرتی چہرے کو ڈھانپے بیڈ پر بیٹھ جاتی یے جہاں اس کے ارد گرد صرف فلاب کی پتیاں بکھری ہوئ تھیں۔  

وہ بڑی مشکل سے حواس کو سنبھالتی سانسوں کو ترتیب دیتی ہے۔۔۔۔ ایک وجود اس کی جانب بڑھتا ہے  جیسے  جیسے اس کے قدموں کی چاپ سنتی ویسے ویسے خود کو سمٹتی جاتی۔۔۔پھر وہ وجود اس کے قریب بیٹھا اور جونیی اس نے اس کی جانب یاتھ بڑھایا اپنے پاؤں کی انگلیاں سنیٹنے لگی اور یاتھوں کو ہاتھوں میں مروڑنے لگی۔۔۔۔ اس لڑکے کے گھونگھٹ اٹھانے پر رافیعہ نے دھیمی شرمیلی مسکان سے اس کو خوش آمدید کہا۔۔۔اور وہ خوبصورت لڑکا مسکرایا۔۔۔۔ 

کچھ دیر انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور رافیعہ نے نظریں جھکا کر موند لیں۔۔۔۔

پھر یک دم سناٹا چھا گیا۔۔۔ رافیعہ نے گھبرا کر آنکھ کھولی تو سامنے منہ میں پان چباۓ کوئ بدلحاظ غلیظ شخص تھا جس کے ہاتھ میں پیسے موجود تھے اور وہ ان پیسوں کی گڈی کو لہرا رہا تھا اور جونہی رافیعہ وہاں سے خود کو نکالنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کرتی ہے  تو دیکھتی یے اس کے ہاتھوں پاؤں میں زنجیریں ہیں  وہ خود۔ کو چھڑوانے کی بہت کوشش کرتی ہے زخمی ہوگئ لیکن آزاد  نہیں کر پاتی اور اس کے سامنے موجود وہ شخص زور زور سے ہنستا ہے۔۔۔۔ وہ بہت زور سے چیختی خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں بہت روتی یے۔۔۔۔۔۔

اسی کشمکش میں وہ اس خوشنا بھیانک خواب سے چیختی چلاتی جاگ جاتی ہے ۔۔۔ اس کے پاس کیٹی عافیہ کی آنکھ کھل جاتی یے اور وہ فوراً رافیعہ جو جھنجھوڑ کر ہوش میں لاتی ہے پھر سینے سے لگا لیتی ہے لیکن رافیعہ بوکھکائ ہوتی یے اور بس کہ رہی ہوتی یے 

عافی وہاں نہیں جانا واپس نہیں جانا۔  ۔۔۔۔ نہیں نہیں نہیں جانا۔۔۔۔۔ ہم نے نہیں جانا 


عافیہ اس کو سنبھالتی کہتی ہے ہاں نہیں جائیں گے تم پر سکون ہو جاؤ لیکن رافیعہ اس کے ڈینے سے لگی یہ ہی کہتی رہتی ہے کہ۔۔

نہیں جانا۔۔۔۔۔۔ پھر سے نہیں ۔۔۔ نہیں نہیں

عافیہ روتی اس کو پرسکون کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور یونہی صبح ہوجاتی ہے


وہ دونوں وہیں اسی طرح بیٹھی سوئ ہوئ ہوتی ہیں سورج کی کرنیں جب عافیہ کی آنکھوں پر پڑتی ہیں وہ رافیعہ  کاسر تکیے پر رکھتی خود اپنے بال سنوارتی منہ پر پانی ڈالتی ہے پھر ایک گلاس میں پانی لئے کھڑکی میں کھری ہوئ سامنے سڑک پر گزرتے لوگوں کو دیکھنے لگتی یے اور سوچ میں مگن ہو جاتی ہے کہ فون بجتا ہے۔۔۔۔

وہ فون کو اٹھا کر کان سے لگاتی ہیلو کہتی ہے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت موجود میں 

سامنے سے ابرار کی آوازمیں خوشی سن کر  وہ یک دم اس منظر سے نکلتی حیراں سی یوتی وجہ مسرت دریافت کرتی ہے اور وہ بتاتا ہے کہ رافیعہ کی حالت میں سدھار آیا ہے اس نے اپنے ہاتھ کو جنبش دی ہے اپنی محبت سے اس نے ساتھ چھوڑتی دور جاتی رافیعہ کو پھر سے پاس بلا لیا ہے 

عافیہ خوشی میں خوش ہوتی بس ابھی پہنچتی ہوں یسا کہتی اپنا بیگ اٹھاتی ہسپتال کے لئے نکل جاتی ہیں ۔۔۔

Post a Comment

0 Comments