Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat By Sidra Mohsin Episode 11

قسط #11

راستے میں اس کی گاڑی اشارے پر رکتی ہے تو ۔۔۔۔ اس کی  نظر ایک لڑکی پر پڑتی ہے جو سر پر دوپٹہ ٹکاۓ ہر ایک سے بھیک مانگ رہی ہوتی ہے پھر وہ دومردوں کے پاس جاتی ہے تو وہ اس سے باتیں کرنے لگتے ہیں وہ بھی ہس ہس کر جواب دینے لگتی ہے وہ باتوں کے جواب اسی غرض سے دیتی ہے کہ اسے کچھ رقم مل جاۓ بھیک کی صورت یا تسکین کی صورت۔۔۔ 

مرد اسے چھوتا بھی ہے اس سے خوش گپیاں بھی لگاتا ہے پھر کچھ بھیک دے دیتا ہے کتنی اذیت ہے نا ۔۔۔ کسی طرح بھی زات کا نامکمل ہونا ۔۔ ہم ہر طرح ہر جانب ایک قدم بڑھاتے ہیں خود کو مکمل کرنے کی چاہ اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ہے عمل میں تمیز کرنا بھول جتے ہیں اپ ی زات کی نفی اس قدر کرتے ہیں کہ خود ناپید ہونے کے در پر ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مکمل ہونے کی جستجو اور چاہ پیچھا نہیں چھوڑتی یہاں تک کہ لحد میں اتر جاتے ہیں ۔۔۔ کچھ لوگ اپنے ہاتھ میں لکیریں تو رکھتے ہیں لیکن ان لکیروں میں قسمت نہیں ہوتی ۔۔۔ ساری زندگی قسمت کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خواہشات کی تکمیل یا یوں کہوں ان تک رسائ اور حسرتوں کے بوٹوں کی نشونما کرنے میں گزر جاتی ہے لیکن ان بوٹوں سے پھول نہیں کھلتے اکثر بلکہ یہ ہرے بوٹے سر جاتے ہیں کیڑے ان جو کھوکھلا کردیتے ہیں بالکل ہمارے وجود کی طرح۔۔۔

اشارے کی بتی سرخ سے ہری ہوتی ہے اور اس کی گاڑی چلنے لگتی ہے وہ جاتے ہوۓ بھی اسی لڑکی کو غور سے دیکھتی جاتی ہے جب وہ ہسپتال پہنچتی ہے تو  ابرار کو خوش دیکھتی ہے س کے پاس جاتی ہے تو وہ اسے سینے سے لگاتا اپنی خوشی ک اظہار کرت بتاتا ہے کہ اس کی رافیعہ اور اس ک بچہ دونوں حفاظت سے ہیں رافیعہ اب زندگی کی طرف آنے کی کوشش بھی کر رہی ہے وہ اسے مسکراتی دیکھ رہی ہوتی ہے کہتی ہے کہ میں رافیعہ سے مل لیتی ہوں لیکن اس سے پہلے اس کی نظر ایک آدمی پر پڑتی ہے جو کہ شکل سے جانا پہچانا لگ رہا یوتا ہے اس نے بڑی سی کالی چادر لپیٹی ہوئی تھی لیکن اس کی ہلکی سی جھلک سے وہ عافیہ کو روحیل کا مشابہ لگاتا وہ اس کے پاس جانا چاہتی تھی کیونکہ اتنے سل بعد بھی وہ اس کے خدو خال نہیں بھول پائ تھی ۔۔

اس نے ابرار کو رافیعہ کے پاس جانے کو کہا تو روحیل نے استفسار کیا تم نے نہیں آنا اسے دیکھنے ؟ تو عافیہ نے ڈاکٹر سے خود ملنے کا بہانہ کردیا کہ س سے رافیعہ کی حالت اور آگے س کی بہتری کیسے ہوگی یہ سب پوچھنا چاہتی ہوں تاکہ رافیعہ جلد از جلد اس ٹروم سے باہر آسکے 

روحیل اسے بہت غور سے دیکھ رہا ہوتا ہے وہ سوچ میں گم ہوتا ہے کیونکہ عافیہ ک ردعمل مشکوک تھا بہت ساری سوچوں میں گم اس کی بات من کر وہاں سے چلا جاتا ہے اتنے میں عافیہ اای جانب جہاں اسے روحیل نظر آیا تھا دیکھتی ہے تو وہاں روحیل کو نا پا کر پریشان ہو جاتی ہے اور اسے ڈھونڈنے لگتی ہے تمام چہرے ٹٹول کر جب وہ ریسیپشن پر بیٹھی نرس سے پوچھتی ہے کہ یہاں ایک آدمی تھا لمبا اونچا کالی چادر اوڑھے ابھی یہیں پر موجود تھا اب نہیں ہے ۔۔۔

تو نرس بتاتی ہے کہ وہ ڈالٹر کے بلانے پر اپنے چیک اپ کے لئے گیا ہے تو عافیہ اس سے استفسار کرتی ہے کہ اسے ایسا کیا ہوا ہے 

تو وہ نرس جواب دیتی ہے کہ مکمل رپورٹ کا تو پتا نہیں لیکن کل ڈکٹر صاحبہ کہ رہی تھیں کہ کینسر کا پیشنٹ ہے لاسٹ سٹیج۔۔۔ عافیہ شاک میں چلی جاتی ہے اور یکدم ماضی کی جھلکیاں تیزی سے اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں وہ پریشانی کے عالم۔میں اس کو ڈھونڈنے لگتی ہے کتنے سال بعد ملاقات ہوئی اور کتنے سال بعد کیسا حال پایا ۔۔۔

صحیح کہتے ہیں وقت بڑی تیز رفتاری سے آگے بھاگتا ہے ہم اس کا پیچھا کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر پاتے ۔۔۔ وقت تب بھی بہت تیزی سے گزرا تھا جب روحیل وہ جو ہم طر پوری دنیا کی طرح غلاظت بھری نظریں رکھتا تھا جب رب نے اس پر اپنا کرم کیا تو وہی روحیل تھا جو ہمیں گندی نظروں سے بچانے کی کوشش کرتا تھا محنت کر کے ہماری ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتا چاہے مکمل کامیاب نہیں ہوپاتا تھا لیکن کوشش سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا ۔۔ وقت واقعی بہت تیز رفتار ہے 

عافیہ کو بہت دیر ڈھونڈنے کے بعد روحیل نظر آہی گیا جو دور ایک بنچ پر خود کو اسی کالی چادر میں چھپاۓ بیٹھا تھا ۔۔۔۔ میں اس کے پاس گئ اس کے منہ سے چادر ہٹائ تو اس نے آبدید آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پوچھا کیا

کالا رنگ تمام تر داغ چھپا لیتا ہے ؟ جو واضح ہوں اور جن کو دور کرنے کی بہت کوشش کی ہو وہ بھی چھپ جاتے ہیں؟ 

ایسا کہنے کے بعد عافیہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہے اور وہ دونوں اپنے حال کو سمنے رکھ کر ماضی کی تکالیف سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔۔۔ اور اشکبار ہوتے سسکیوں بھری آواز سے عافیہ کہتی ہے  

کالا رنگ تمام تر داغ تو چھپا لیتا ہے لیکن یہ معاشرہ ہر چھپے داغ کو دیکھنے میں ہی دلچسپی رکھتا ہے  ہم کالے رنگ سے سیاہ ماضی کو دور کرنا بھی چاہیں تو بھی یہ معاشرہ زخم کرید کر ماضی کو منظر عام پر لے آتا ہے ۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments