Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Momin By Ayesha Jabeen Episode 13 - Daily Novels

مومن

از عائشہ جبین
قسط 13
سرخ جوڑے میں وہ دلہن بنی ہوئی بیٹھی تھی۔
 اس کا دوپٹہ چہرے پر تھا ۔
وہ مکمل گھونگھٹ میں تھی وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ فرحت ملک شاید باہر مہمانوں کے ساتھ تھی۔
 سفید رنگ کےبے داغ سوٹ میں وہ بہت نکھرا نکھرا لگ رہا تھا ۔
اس کے دل و دماغ میں بہت سی الجھنیں تھیں، وہاں غائب دماغی سے موجود تھا ۔
اس وقت بھی وہ دعا کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا جس کو وہہر جگہ تلاش کر رہا ہے اس تو اس کی زندگی میں شامل ہونے والی تھی، اپنے پورے حقوق  کے ساتھ ،ایک ایسے پاکیزہ رشتے میں بندھ کر جو بہت ہی پاک ہے ،وہ رشتہ جس میں اللہ تعالی خود محبت ڈال دیتا ہے۔ان دونوں کا رشتہ محبت کا احترام کا ہونے والا تھا۔
یارو ملک کمرے میں گواہ اور  قاضی صاحب کے ساتھ اس کی رضامندی لینے کے لیے آئے تھے ۔
مومن آفندی کا نام سن کر وہ جیسے پتھر کی ہو گئی تھی۔ وہ انکار کرنا چاہتی تھی۔ مگر ہونا انکار کر سکی ،وہ کبھی ایسے شخص کی زندگی میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی جو گناہ گار تھا ۔
مگر اس وقت اس کے بابا کی عزت اس کو اپنی ضد اور اپنی انا اور خودداری اپنے جذبات ہر چیز سے زیادہ سے زیادہ عزیز تھی۔
 اس نے خاموشی سے سر کو اثبات میں ہلا کر رضامندی اور نکاح نامے پر دستخط کردیے ۔
وہ جس سے  نفرت کرتی تھی ۔
وہ اس کی زندگی میں شامل کردیا گیا تھا ،کتنی مجبورتھی وہ آج اس کی بے بسی کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔

###

وہ حسد اور رقابت کی آگ میں جل رہی تھی۔  ویسے بھی یہ حسد  کی آگ انسان کو گیلی لکڑی کی طرح سلگا کر رکھتی ہے۔ انسان کب ختم ہوجاتا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا ۔
یہ حسد انسان کو اندر ہی اندر کھا لیتا ہے ۔
"میں تمہارا جینا حرام کر دوں گی تم نہیں جانتے کہ تم نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے ۔
اب تم  مجھ سے نہیں بچ پاؤ گے بہت تکلیف دہ ہے یہ  محبت۔
 اب انتقام کا وقت آگیا ہے،تم اب اپنی ہر  حرکت  کا جواب دو گے ۔
ذلیل و رسوا  کر  دوں گی ، سود سمیت بدلہ لوں گا تم سے تم کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہو گے ۔
وہ حشرک کروں گی تمہارا کہ تم ہماری آنے والی سات نسلیں یاد رکھیں گئیں ۔"
 انجلی نے مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے  کہا 
"میں دیوانی ہو رہی تھی تمہارے لیے مگر تم نا ، نا  کرتے رہے " 
وہ خود کلامی کرتے ہوئے اپنا سامان پیک کر نے لگی ۔
 بعض بار ہم بہت سے ایسے کام یا دوستیاں کرتے ہیں جو ہمارے لیے  کوئی فائدہ مند نہیں ہوتے ۔
 بہت سے ایسے رشتے ہوتے ہیں جو کوئی معنی نہیں رکھتے وہ بعض دفع ہمارے لئے وبال جان بن جاتے ہیں۔
 اور بہت بار ایسا ہوا ہے، ہم  بہت  سے ایسے عمل  کرتے ہیں جن کو  ہمیں بہت معمولی سمجھتے ہیں، مگر وہ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اور بہت سے ایسے عمل کردیتے ہیں جو بہت معمولی ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ ہمارے لیے بہت سے پریشانیاں کھڑی کر دیتے ہیں۔
 اور بعض عمل  بہت سی پریشانیوں سے بچا لیتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ ہمارے کون سے عمل ہمارے لیے بہتر ہیں اور کون سے وبال بن جانے ہیں ۔

####

"سورة الواقعہ میں اللّٰه  تعالی فرتاہے "
جب واقع ہونے والی واقع ہو گئی.
 جس کے واقع ہونے میں کچھ بھی جھوٹ نہیں.
 پست کرنے والی اور بلند کرنے والی جبکہ زمین بڑے زور سے ہلائے جائیگی ۔
اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چوراہو جائیں گے سو وہ  غبار کی طرح اڑتے پھریں گے۔
ا اور اس وقت تمہاری تین جماعتیں ہوجائیگی
 پھر داہنے  والے کیا خوب ہیں داہنے والے 
اور بائیں والے برے بائیں والے 
 اور  سب سے اول ایمان لانے  والے اور سب سے  اول داخل ہونے والے
 وہ اللہ کے ساتھ خاص قرب رکھنے والے ہیں۔
 نعمت کے باغات میں ہونگے
 پہلوں میں سے بہت سے۔
 پچھلوں میں سے تھوڑے سے
تختوں پرجڑاو ہوں گے۔
 آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔
" سورۃ الواقعہ کی آیات پڑھ کر  رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سوچئے تو سہی کتنا مشکل وقت ہوگا جب وہ حشر کا میدان سجے گا ۔
سخت گرمی ہوگی سر  سے ایڑی تک پسینہ بہہ رہا ہو گا ۔
اور وہ خوش نصیب لوگ  وہ جن کو عرش کا سایہ ملے گا۔
نیکیوں کو تولا جائےگا۔
ہر کوئی ایک ایک  نیکی کے لیے بھاگا پھرتا  ہوگا۔
 باپ کی شفقت ،دوستی ختم ہوجائےگی ۔
بھائی بہنوں کا پیار فنا ہو جائے گا، نہ مال و زر کام آئے گا کام آئیں گے تو فقط اعمال وہ جو آپ نے نیک کیے ہوں گے ۔
  جو سیاہ ہوں گے وہ چھپتے پھر رہے ہوں گے اور بہت سے چہرے جو چاند کی طرح چمکتے ہوں گے وہ خوشیاں مناتے پھر رہے ہوں گے۔
 وضو کے اعضاء سے روشنی پھوٹے گی پھر اعمال نامے دیے جائیں گے۔
 کچھ اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے ان کو جنت کی نوید سنا دی جائے گی۔
 اور بدبختی ان لوگوں کے لئے جن کے پشت سے ان کو نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑا جائیں گے اور دوزخ کی جانب ہانکے رکھے جائیں گے ۔
جنت اور دوزخ کا فیصلہ سنا دیا جائے گا اور جنتی جنت میں جائیں گے تو ان کا استقبال کیا جائے گا جہاں سہانا موسم ہوگا ،ٹھنڈی خوشگوار ہوائیں چلتی ہونگی نہ سردی ہو گئی نا گرمی ہوگی سرسبز ہو گئی ۔
باغات ہوں گے۔ عنبر مشک اور کستوری کی خوشبو ہوگی جہاں دودھ شہد اور پاکیزہ شراب کی نہریں بہتی ہوں گی وہ شراب جس کو پی کر نشہ نہیں ہوگا۔
 اور دوزخ جس میں کھولتے ہوئے پانی سے مہمانی ہو گی جہاں پیپ دی جائے گی۔
 جہاں تھورکے درخت ہونگے دہکتی ہوئی آگ اور جلتے ہوئے پتھر ہوں گے۔
 جہاں پر اذیت ہوگی جہاں پر نافرمانی کی سزا ملے گی ۔
جنت جہاں پہ میرے آقا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہوں گے اور وہاں حضرت داؤد علیہ السلام کی خوبصورت آواز میں قرآن پاک کی تلاوت سنائی جائے گی۔
 اور  پھر ہم نے وہاں اپنے بچھڑے  ہوئے ماں باپ ، بیوی بچوں شوہر سے  ملیں گے مگر شرط ان کا جنتی ہونا ہے ۔
 اور  بڑھ کے اللہ پاک ہم سے ہم کلام ہو گا۔
وہ ہم پر اپنی تجلی ڈالے گا۔ ایک نور کی  برسات ہوگی ہم پر۔
وہ جو سب بہت غور سے سن رہی تھی اس کو لگا ایک کرنٹ سا دوڑ گیا اس کے سارے وجود میں اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔اس نے جھر جھری اور پھر سے وہ مقررہ کی باتیں سننے لگی ۔
"  تو اپنے اعمال درست کر لیجئے تاکہ آپ کا ٹھکانہ جنت میں بن جائے اور دوزخ سے آپ کو خلاصی مل جائے۔آمین 
اللّٰه دعا سے ہم دوزخ بچائے اس کے عذاب سے بچائے ۔آمین 
قبر کی سختی سے بچائے ۔آمین 
ہمارا ٹھکانہ جنت میں بنائے۔ آمین 
 ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق دے ہمیں برے کام برے لوگ برے عادتوں سے بچا لے آمین "
وہ دعا کرا رہی تھیں اور رانیہ کے دماغ میں اپنے گناہوں کی ایک فلم چل رہی تھی ۔
#########

دعا کا نام سن کر مو من کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
  وہ بھلا اتنا بانصیب کیسے ہو سکتا تھا جس کے لیے وہ تڑپ رہا تھا۔
 جس کے لیے وہ بے چین تھا جس کے لیے ہر پل دعا کر رہا تھا، وہ اس کو یوں  آسانی سے مل جاتی ۔
  پاک ہو گیا کہ وہ میری ہو جائے جب قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ" پاک مردوں کیلئے پاک عورتیں ہیں اور  پاک عورتوں کے لیے پاک مرد "
خود کلامی کرتے ہوئے نکاح نامہ پر دستخط کر رہا تھا۔ دعائیں مقبول ہوتی ہیں، وہ دل سے مانگی ہوتی ہیں ۔
 و ہ وفائیں رنگ  لاتی ہیں جن میں جذبات سچے ہوتے ہیں۔ جو سچ پر ہوتے ہیں  ان کو کوئی ہارا نہیں سکتا ۔
جن میں جھوٹ نہیں ہوتا ریاکاری نہیں ہوتی وہ جذبے اپنی جگہ خود بنالیتے ہیں۔
 دعا اور مومن کو ساتھ بٹھایا گیا تو مومن ذرا بھی کوشش نہ کی کہ وہ دعا کے چہرے کو دیکھتا۔
وہ تو اپنی سوچوں میں گم تھا جب شاہنواز آفندی نے فرحت ملک  اور یارو  ملک سے رخصتی کا تقاضا کیا جس  پر  یارو ملک بولے
" بابا جان! یہ گھر آپ کا اپنا ہے جب تک چاہیں اس گھر  میں رہیں اور جب لوگوں نے اسلام آباد جانا ہو چلے جائے گا۔ ابھی کہاں جانا ہے ؟"
" بے شک یہ  ہمارا اپنا گھر ہے مگر اس وقت ہم  جائیں گے اور کچھ دیر تک واپس  آ جائیں گے ،مگر یہ دونوں بچے وہی رہیں گے ہم نے ان کے لیے وہ انتظام کیا ہے ۔
اورتم مجھے اس سے منع نہیں کر سکتے ہو "
 شاہ شاہنواز آفندی  نے کہا تو یاور ملک نے اثبات میں سر کو ہلایا تھا۔
وہ سب ہوٹل کے لیے روانہ ہوگے تھے۔
######

سرخ گلابوں سے کمرہ سجا ہوا تھا۔
 وہ کمرہ اس کو اس وقت نہایت برا لگ رہا تھا۔
 اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کمرے کا حشر بھی بگاڑ دے ۔
 وہ کس قدر مجبور تھی وہ ایسے شخص کا انتظار کر رہی تھی جو اس کا مجرم تھا وہ شخص کے لئے سجی سنوری بیٹھی تھی ،جس سے وہ بے حد نفرت کرتی تھی۔
وہ اپنے اللّٰه سے شکوہ کرنا چاہتی تھی۔
 مگر شکوہ اس کی زبان کی نوک پر آکر دم توڑ جاتا تھا ۔
وہ اپنے آنے والے وقت اور اس کی اذیت کو سہنے کے لیے اپنے رب سے دعا گو تھی۔
 وہ نہیں جانتی تھی کہ آگے اس کے ساتھ اس کے لیے کیا کیا امتحانات پڑے ہیں ۔
وہ تو بس یہ جانتی تھی کہ وہ ایک ناپسندیدہ شخص کی زندگی میں شامل کر دی گئی ہے۔
 جس کو اس نے  اپنے باپ کی عزت کے لیے  ساری زندگی نھبانا ہے ۔
وہوٹل کے لان میں بیٹھا ہوا آنے والے وقت کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا ۔
مگر دعا کا روتا ہوا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتا تھا۔
 اس نے ہار کر اپنا چہرہ آسمان کی طرف کر لیا ڈھلتے مہینے کا چاند چمک رہا تھا ۔
"ہر چیز کو زوال ہے ہر چیز کی ایک مدت ہے اللّٰه ہے جو سدا تھا، ہے ، اور رہے گا۔"
وہ خود کلامی کر رہا تھا ۔پھر اس کا دماغ بھٹکا اور وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا جو کمرے میں اس کی منتظر تھی ۔
وہ دل ہی دل میں  سوچنے لگا کیا وہ اپنی زندگی میں  اس لڑکی کو وہ مقام دے سکے گا جو اس کا حق ہے.  
پھر خود ہی اپنی نفی کرنے لگا
" نہیں  کبھی نہیں کوئی بھی لڑکی وہ مقام نہیں لے سکتی جو  میری زندگی میں دعا کا  ہے۔
 وہ کوئی نہیں لے سکتا ،وہ میری حیات ہے ،وہ میری محبت ہے "
وہ خود کلامی کر رہا تھا اس کی آنکھوں میں نمی تھی وہ دل ہی دل میں رو رہا تھا۔
 اس کے دکھ کا مداوا کون کرےگا وہ تو اب کسی سے کچھ بھی بول نہیں سکتا تھا۔
 وہ لڑکی جو اس کا دلہن بنے انتظار  کر رہی تھی وہ اس کے آگے اس کے ساتھ آگے کی زندگی کیسے بسر کرے گا یہ سوچ اس کو کسی آکٹوپس کی طرح جڑے ہوئے تھی ۔
وہ شاید پوری رات وہیں گزار دیتا ۔
جب شاہنواز آفندی نے آکر اس کو کمرے میں جانے کا کہا وہ مرد مردہ قدموں سے اس کمرے کی طرف جارہا تھا ۔
جہاں اس کی حیات تھی، جہاں اس کی محبت تھی، مگر وہ اس بات سے انجان تھا۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments