Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Peer Zadi By Waheed Sultan Episode 18

ناول:پیرزادی

مصنف:وحید سلطان

قسط 18

سالار مغل کے ہاتھ اُس کی پشت پر تھے۔ اُس کے ہاتھوں کو مضبوط رسی سے باندھا گیا تھا جبکہ اُس کا پاؤں فولادی زنجیر سے جھکڑا گیا تھا اور زنجیر کا دوسرا سرا دیوار میں موجود ایک کھونٹی سے منسلک تھا۔ سالار مغل کمرے کی دیواروں اور پھر چھت کو گھو رہا تھا جب قطب وہاں آئی اور اُس نے قہقہوں کے ساتھ ہنسنا شروع کر دیا۔

۔"تمہاری مما نے تمہاری تلاش شروع کر دی تھی اس لیے مجبوراً تمہیں دوسری جگہ شفٹ کرنا پڑا۔"قطب اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بولی تو مشال سیما بھی کمرے میں داخل ہوئی۔ مشال سیما روئی اور کپڑے سے بنا وہ پُتلا لے آئی تھی جسے سالار مغل نے گاؤں میں کسی چھوٹے سے کمرے میں لٹکا رکھا تھا۔ پُتلے کو دیکھ کر سالار کے چہرے پر پہلے تو غصے کے آثار نمودار ہوئے مگر جب مشال نے پُتلے کو فرش پر پھینکا تو سالار منہ بسورتے ہوئے بولا اور مشال سے کہا کہ وہ پُتلے کو فرش سے اٹھا لے۔ سالار نے جب بار بار منت سماجت کی تو مشال سیما نے مسکراتے ہوئے پُتلا اٹھا لیا اور پھر سالار کی جانب متوجہ ہوئی۔

۔"مجھے اس پُتلے کا راز بتا دو ورنہ میں اسے دوبارہ فرش پر پھینک دوں گی۔"مشال سیما نے مسکراتے ہوئے کہا تو سالار مغل نے بتایا کہ اس نے یہ پُتلا اپنے مرحوم دوست قاسم کی یاد میں بنایا تھا۔

۔"اگر یہ پُتلا تم نے اپنے دوست قاسم کی یاد میں بنایا تھا تو پھر جب تم بہت غصہ میں ہوتے ہو تو اس پُتلے کو چھڑی سے پیٹتے کیوں ہو؟"مشال سیما نے سالار مغل کو گھورتے ہوئے اگلا سوال پوچھا۔

۔"میرے دوست قاسم نے میرے ساتھ غداری کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔"سالار مغل نے کہا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔

۔"سالار نے آخری بار جب مجھے ملاقات کے لیے بلایا تھا تو جب میں اس سے ملاقات کے لیے جارا پیر کے مزار کے تہہ خانہ میں گئی تھی تب سالار مجھے حوس پرست دوستوں کے درمیان تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا ، سالار نے مجھے محبت کا جھانسا دے کر مجھے اپنا گرویدہ بنایا تھا اور پھر اپنے دوستوں کو خوش کرنے کے لیے مجھے ان کے سامنے پیش کر دیا تھا ، یہ قاسم ہی تھا جو میری عزت بچانے کی خاطر اپنے سب دوستوں سے اکیلا ہی لڑ گیا تھا۔"قطب نے مشال سیما کو ساری تفصیل بتا دی تھی۔ قطب کی تفصیل سن کر مشال سیما حیران ہو گئی تھی۔

۔"تم نے پوچھا تھا نا کہ میں چور کیسے بنی تھی؟"قطب نے استفہامیہ انداز میں مشال سے پوچھا تو مشال نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"سالار نے میری تصویریں میرے گھر بھجوا دیں تھیں اور وہ تصویریں دیکھ کر پاپا نے مجھے عاق کر دیا اور گھر سے نکال دیا تھا ، اس کے بعد میں نے قاسم کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا تو قاسم ایک چور تھا اور اسی کی صحبت میں رہ کر میں بھی ۔ ۔ ۔ ۔"قطب نے کہا اور آخر میں اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔

۔"قاسم کا قاتل سالار ہے؟"مشال سیما نے پوچھا تو قطب نے سالار کی جانب دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

۔"وہ اپنی بیماری کے باعث مر گیا تھا۔"قطب نے مشال سیما کے سوال کا جواب دیا تو مشال نے قطب کو ایک ڈنڈا لانے کے لیے کہا تو قطب نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

۔"ہم بھی اس پُتلے کی پٹائی کریں گے۔"مشال سیما سالار مغل کی جانب دیکھتے ہوئے بولی تو سالار کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے خود کو رسی کی بندش سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ کسمسا کر ہی رہ گیا۔

۔"جو پُتلا میرے دوست کے نام سے منسوب ہے اس کی تم ہرگز تذلیل نہیں کر سکتی۔"سالار مشال کے شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا تو مشال سیما مسکراتے ہوئے بولی۔

۔"تم بھی تو اس پُتلے کی تذلیل کرتے تھے نا۔"

۔"قاسم نے میرے ساتھ غداری کی تھی اور قطب کا ساتھ دیا تھا اس لیے میں اس سے منسوب پُتلے کی پٹائے کرتا تھا لیکن تم ایسا نہیں کر سکتی۔"وہ غصے سے غڑاتے ہوئے بولا تو مشال سیما کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

۔"مجھے اتنی اذیت دینا جتنی اذیت تم بعد میں برداشت کر سکو۔"سالار دھمکی خیز لہجے میں بولا۔

۔"کیا مطلب؟ ، تم کہنا کیا چاہتے ہو؟"مشال سیما نے سالار سے پوچھا۔

۔"جب میں تمہاری قید سے رہا ہو جاؤں گا تو پھر میں تمہیں اور قطب کو اغوا کر کے اتنی ہی اذیت تم دونوں کو دوں گا جتنی اذیت تم مجھے دے رہی ہو۔"سالار نے کہا تو مشال چل کر اس کے پاس آئی۔

۔"اگر کبھی تم مجھے اغوا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تم مجھے جو سزا دو گے مجھے قبول ہو گی۔"مشال سیما نے چیلینچ کرنے والے انداز میں کہا اور پھر اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔

۔"جب تمہیں اغوا کروں گا تو تمہیں تمہارا یہ وعدہ ضرور یاد دلاؤں گا۔"سالار نے کہا جبکہ قطب لکڑی کا ڈنڈا لے آئی تھی۔ قطب سے ڈنڈا لینے کے بعد مشال سیما نے پُتلے کو پیٹنا شروع کر دیا جبکہ سالار کا غصہ اب ٹھنڈا پڑ گیا اور اب وہ منت سماجت کر رہا تھا کہ پُتلے کی تذلیل نہ کی جائے مگر مشال سیما کب باز آنے والی تھی۔

☆☆☆☆

پُتلے کی پٹائی کرنے اور سالار مغل کو اذیت دینے کے بعد مشال سیما واپس آ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ قطب کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا۔ فون اسکرین پر نور بنت نذیر کا نمبر نمودار تھا۔ مشال سیما نے کال پک کی تو دوسری جانب سے اسے بہت افسوسناک خبر سننے کو ملی۔ نور نے مشال کو بتایا تھا کہ فارس نے اس کے بابا پیر ابدالی کو قتل کر دیا ہے۔ بابا کے قتل کے بارے میں سن کر وہ بہت پریشان ہو گئی۔ اس نے قطب کا انتظار نہ کیا اور گاڑی چلا دی۔ وہ اپنے آبائی شہر کے لیے روانہ ہو گئی۔

☆☆☆☆

پیر ابدالی اور فیروزہ کی تدفین ہو چکی تھی۔ بہت سی عورتیں تعزیت کے لیے نور بنت نذیر اور فہمیدہ بیگم کے پاس آئیں تھیں۔ وہ دونوں عورتوں کے درمیان مسند پر براجمان تھیں جبکہ باقی تمام عورتیں دائروی حلقے کی شکل میں فرش پے بچھے قالینوں پر بیٹھی تھیں۔ چند عورتوں نے پیر ابدالی کی بیٹی مشال سیما کے بارے میں سوال کیا کہ مشال سیما کہاں ہے؟

۔"وہ اپنے بابا کا آخری دیدار کرنے کے لیے کیوں نہیں آئی؟"بہت سی عورتوں نے یک زبان ہو کر نور بنت نذیر اور فہمیدہ بیگم سے پوچھا تو نور نے بلند آواز میں بولتے ہوئے بتایا کہ پیر ابدالی کے جنازے سے قبل مشال سیما کو فون کر کے اطلاع دے دی گئی تھی اور پھر اسی کےانتظار میں تین گھنٹوں تک جنازہ بھی لیٹ کیا گیا تھا۔ وہ لاہور سے روانہ ہو چکی تھی لیکن بعد میں اس کا فون بند تھا اور اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔

نور بنت نذیر کی بات سن کر وہ سب عورتیں خاموش ہو گئیں تھی جنہوں نے مشال سیما کے بارے میں پوچھا تھا۔ چند منٹوں کے خاموشی کے بعد نور بنت نذیر تمام عورتوں سے مخاطب ہوئی اور انہیں بتایا کہ مشال سیما کی دوست سدرہ فرہین نے شمع قرآن کے نام سے ایک رسالے کا اجرا کیا ہے جس کا حصہ اول شائع ہو چکا ہے۔

۔"میں رسالہ شمع قرآن کے حصہ اول کی چالیس کاپیاں چچا جان پیر ابدالی صاحب کے ایصال ثواب کے لیے تقسیم کروں گی ، اگر کسی کو مزید کاپیاں درکار ہوں تو وہ رکھا چودھری پبلیکیشن سے بذریعہ ڈاک منگوا سکتا ہے۔"نور بنت نذیر نے عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تو فہمیدہ بیگم نے حیران ہوتے ہوئے نور کی جانب دیکھا جبکہ اسی دوران نور بنت نذیر کے کہنے پر رسالہ شمع قرآن کی چالیس کاپیاں حاضرین میں تقسیم کر دی گئیں۔

رسالہ شمع قرآن کےابتدائی دو صفحات پر قرآن پاک کی شان میں بہت عمدہ کلام لکھا تھا جو یوں تھا۔


یہ سب چھوڑ کے قرآن پڑھا کر

"اَلملک "پڑھاکرکبھی"رحمن"پڑھاکر


"حم" پڑھاکرکبھی "یسین" پڑھاکر

"انعام" پڑھاکرکبھی "فرقان" پڑھاکر


"انفال" پڑھا کر کبھی" اعراف" پڑھاکر

"احزاب" پڑھاکرکبھی "عمران" پڑھاکر


"احقاف" پڑھاکرکبھی "ماعون" پڑھاکر

"اخلاص" پڑھاکرکبھی" انسان" پڑھاکر


"اَلنور" پڑھاکرکبھی" اَلطور" پڑھاکر

"اَلروم" پڑھاکرکبھی" لقمان "پڑھاکر


اس نورکا واللہ! متبادل نہیں کوئی

فرصت ہےتو اللہ کی برھان پڑھاکر


نازل ہے ہوا قلبِ محمدپہ یہ پیغام

دستور پہ حضرتِ انسان پڑھاکر


پڑھ سیدِکونین وشہِ دیں کےفرامیں

کچھ روشنی قبرکاسامان پڑھاکر


ابتدائی صفحات کے بعد والے صفحات پر جو عبارتیں شائع ہوئیں تھی وہ یہ تھیں۔

اللہ تعالی قرآن مجید کے ذریعے اپنے بندوں سے گفتگو فرماتا ہے۔

نبی کریم  کا ارشاد پاک ہے۔

۔"تم میں سے اگر اللہ سے باتیں کرنے کو کسی کا جی چاہے تو وہ قرآن کھول کر بیٹھ جائے۔

قرآن اللہ سے ہمکلام ہونا ہے۔

اللہ سے سرگوشیاں کرنا ہے۔

اللہ سے باتیں کرنا ہے۔

کاش ہم قرآن مجید کے مفہوم کو اور قرآن مجید کے معنی و مطالب کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتے۔

افسوس ہم نے قرآن مجید کو ترک کر دیا ہے۔

ہم میں سے اکثر و بیشتر قرآن کو بطور رسم پڑھتے ہیں۔

قرآن مجید کو جس مقصد کے لیے نازل کی گیا تھا صد افسوس وہ مقصد ہم حاصل نہ کر سکے۔

افسوس ۔ ۔ ۔ ۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت سے ہی مطمئین ہو جاتے ہیں لیکن ہم معنی و مطالب پر غور ہی نہیں کرتے۔

ہم قرآن مجید کی تلاوت سن کر تو خوب جھومتے ہیں مگر قرآن مجید میں اللہ کی جانب سے ہمارے لیے جو پیغام تھا اسے سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

جتنا یقین اور جتنی پختگی قرآن کے دامن میں ہے وہ آپ کو کہیں اور نہیں مل سکتی۔ قرآن کا ایک ایک لفظ صداقت پہ مشتمل ہے۔ ہمارے بزرگوں اور اولیاء اکرام نے جس انداز کے ساتھ قرآن سے اپنی محبتوں کا اظہار کیا ہے تو انسان ششدر رہ جاتے ہیں۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بندے کو صندوق دیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ یہ صندوق دریائے دجلہ کی موجوں کے سپرد کر دے اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کی کہ صندوق کو کھول کر مت دیکھنا کہ صندوق کے اندر کیا ہے۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی ہدایت کے مطابق صندوق کو جب دریائے دجلہ میں پھینکا گیا تو پانی پھٹ گیا اور پانی نے صندوق کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ سارا منظر دیکھ کر وہ آدمی بہت حیران ہوا جسے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے صندوق دے کر بھیجا تھا۔ وہ آدمی واپس پلٹا اور حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس صندوق میں کیا تھا جس کے لیے پانی نے اپنی راہیں چھوڑ دیں اور اگر وہ چیز اتنی ہی مقدس اور بابرکت تھی تو پھر اسے یوں صندوق میں بند کر کے دریا میں کیوں ڈالا گیا۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اس آدمی سے مخاطب ہوئے اور اس سے کہا کہ تم نے اپنی آنکھوں سے منظر ہی ایسا دیکھا ہے کہ اب اس منظر کے اندر چھپے راز سے پردہ اٹھانا ضروری ہو گیا ہے۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا کہ میں نے بارہ سال کی طویل جدوجہد کے بعد تصوف کے رموز و غوامز اور اسرار پر ایک کتاب لکھی تھی اور پھر بارہ سالوں تک اس کی نوک پلک سنبھالتا رہا کہ اس کا کوئی جملہ شریعیت کے مزاج سے ہٹ کر نہ لکھا گیا ہو۔ پھر بارہ سالوں تک سوچتا رہا کہ اس کتاب کو لوگوں تک پہنچاؤں یا نہ پہنچاؤں؟

چھتیس سال بیت جانے کے بعد حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے سوچا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے لوگوں کو جنید کی کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ کتاب تھی جو حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی چھتیس سال کی محنت تھی جسے انہوں نے دریا میں بہا دیا۔


قرآن کریم ایسی بابرکت کتاب ہے جو شفا دیتی ہے اور نور بانٹتی ہے۔

قرآن کا ایک ایک حرف صداقتوں پہ مشتمل ہے۔

نبی کریم حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان مبارک ہے۔

"اے مومنو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں مضبوطی سے تھام لو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت۔

اللہ بہت مہربان ہے ۔ قرآن پاک نازل فرما کر اللہ نے اپنے بندوں پر رحم کیا ہے تا کہ ہم قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کریں اور گمراہی سے بچ کر صراط المستقیم پر قائم رہ سکیں۔


اللہ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا تا کہ بھٹکے ہوئے لوگ سیدھی راہ پا سکیں۔

انسان جب گمراہ ہو جاتا ہے تو وہ صراط المستقیم چھوڑ دیتا ہے۔


رسالہ شمع قرآن کے آخری دو صفحات پر قرآن کریم سے متعلق بہت اہم معلومات درج تھیں۔


معلوماتِ قرآن کریم


قرآن کریم کی پہلی منزل میں چار سورتیں، پچاسی رکوع اور چھے سو انہتر آیات ہیں۔


قرآن کریم کی دوسری منزل میں پانچ سورتیں، چھیاسی رکوع اور چھے سو پچانوے آیات ہیں۔


قرآن کریم کی تیسری منزل میں سات سورتیں، اڑسٹھ رکوع اور چھے سو پینسٹھ آیات ہیں۔


قرآن کریم کی چوتھی منزل میں نو سورتیں، چھہتر رکوع اور نو سو تین آیات ہیں۔


قرآن کریم کی پانچویں منزل میں گیارہ سورتیں، بہتر رکوع اور آٹھ سو چھپن آیات ہیں۔


قرآن کریم کی چھٹی منزل میں چودہ سورتیں، انہتر رکوع اور اور آٹھ سو ستاسی آیات ہیں۔


قرآن کریم کی ساتویں منزل میں چونسٹھ سورتیں، ایک سو دو رکوع اور ایک ہزار پانچ سو اکسٹھ آیات ہیں۔

.

.

☆☆☆☆

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments