Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Afat Ki Mari By Amir Sohail Episode 14

ناول۔۔۔آفت کی ماری

ناول نگار۔۔۔عامر سہیل

قسط۔۔۔14

نمرہ خاموشی سے چلی گئی، مگر گھر جا کر وہ سوچنے لگی کہ اب ڈینگی اور شگفتہ تک کیسے پہنچا جائے، میرے پاس نا تو کوئی ثبوت ہے کہ یہ ثابت کروں کہ وہی شخص مکار اختر کا شاطر دوست ڈینگی ہے اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ وہی میری بہن شگفتہ ہے، ایک دن انہی سوچوں میں گُم نمرہ جب وقاص کے گھر سے مارکیٹ کی سمت جا رہی تھی تو اس کی ٹکر ایک عورت سے ہوئی اور عورت نے اسے آرام اور اطمینان سے کہا کہ اللہ کی بندی، دیکھ کر چلو، کن سوچوں میں گم ہو اور کیا کر رہی ہو؟ اسے یہ نسوانی آواز کوئی جانی پہچانی ہی لگی اور اس نے اُس عورت کے منہ کی جانب دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی، کیونکہ وہ عورت کوئی اور نہیں بلکہ شبنی تھی، حالت اجڑی ہوئی، دوپٹہ پھٹا ہوا، سر میں سفید بال دور سے نمایاں، اور بال مٹی میں اٹے ہوئے، تن پر موجود چیتھڑے پھٹے ہوئے، پاؤں میں جوتے نہیں، گلے میں تین چار ہار سے پہنے ہوئے اور ہاتھ میں تسبیح لیے ہوئے، نمرہ پکاری کہ شبنی تم؟ شبنی بولی کہ ہاں نمرہ میں، تمہاری قصوروار شبنی، کاش میں نے اس وقت انسانیت اختیار کی ہوتی اور اپنی زیست کے ساتھ ساتھ تمہاری زیست بھی بچا لیتی، مگر ہائے افسوس میں نے اس وقت عیاشی اور عیش کی زندگی کو چنا اور شراب نے میرے اندر ایسی حیوانیت بھر دی کہ میں مقامِ انسانیت ہی سے گر گئی، مجھے دولت اور آرام و سکون کا ایسا خمار چڑھا کہ مجھے ان چیزوں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا، اس نے دیکھا کہ نمرہ اب بھی چہرے سے مطمئن اور پر سکون تھی، شبنی کو اب اپنے آپ سے بھی گھن آنے لگی تھی، نمرہ نے پوچھا کہ شبنی تم رہتی کہاں ہو؟ شبنی نے جواب دیا کہ نمرہ بی بی اللہ کی زمین بہت بڑی ہے جہاں جگہ ملی رہ لیا اور جہاں جگہ ملی وہیں سو گیا، نمرہ نے کہا کہ کھاتی کیا ہو؟ شبنی بولی کہ جو مل گیا اور اللہ کی مخلوق جو کچھ دے دے وہ کھا لیتی ہوں، نمرہ کی آنکھوں میں یہ سب سن کر آنسو آ گئے، وہ بولی کہ چلو شبنی اب یہ زندگی چھوڑو اور چلو میں تمہیں کچھ ڈھنگ کا کھلاتی ہوں، کپڑے بھی لے کر دیتی ہوں، اور تمہیں فی الحال وہی لے کر جاتی ہوں جہاں میں خود رہتی ہوں، شبنی نے نہ جانے کی ضد کی، مگر نمرہ اسے زبردستی لے کر چل دی۔۔۔

******************

وقاص جان بوجھ کر نمرہ کے کمرے میں چلا گیا، کیونکہ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جس شخص نے نمرہ کو بنا دیکھے ہی اتنی بڑی نوکری دے دی، وہ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے رضی بیٹھا ہے یہ وہی رضی ہے جسے وہ بہت پہلے سے جانتا تھا، وہ جانتا تھا کہ رضی کس قبیح طبعیت کا انسان ہے، رضی کو اس نے ایک جیل میں دیکھا تھا جب وہ ایک دوست سے ملاقات کیلئے سنٹرل جیل گیا تھا، رضی کے بارے میں مزید معلومات درکار تھیں تا کہ وہ اس پر کوئی پکا ہاتھ ڈال سکے، اور اگر نمرہ کو بھی اس کی حقیقت بتلانا مطلوب ہو تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ بتائے تا کہ اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے، اور نمرہ یہ نا سمجھے کہ وقاص نے اسے جان بوجھ کر رضی کے متلق یہ فرضی کہانی سنائی ہے اور وقاص کی نیت میں کسی قسم کا کوئی فتور یا کچھ اور ہے، اب وقاص نے یہ معمول بنا لیا کہ جان بوجھ کر نمرہ کو چھوڑنے جاتا اور شام کو اسے لینے بھی جاتا، اور قرب و جوار کے تھانوں میں جا کر بھی اس کے متعلق معلومات اکٹھی کرتا رہا، اسے اس کام میں تھوڑی جلدی بھی دکھانی تھی تا کہ رضی نمرہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، یہ کام اس کیلئے پریشان کن بھی تھا، کیونکہ اس کی اپنی نوکری بھی تھی، گھر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتا تھا اور نمرہ کیلئے اسے یہ کام بھی ہر حال میں کرنا تھا، اس نے اس مقصد واسطے اپنے ایک دوست عاصم کو بھی ساتھ ملا لیا تا کہ رضی کے کرتوتوں پر بھی مسلسل نظر رکھی جا سکے۔۔

******************

ایک رات مہرو نے ایک عجیب بات دیکھی، اس نے دیکھا کہ ہمسایہ کے چار اجنبی لوگ آئے، اسے کچھ نقدی دی اور ساتھ ہی اسے کچھ کھانے کو دینے کے بعد چل دیے، ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کھانا دیا، ساتھ ہی وہ کہنے لگا کہ اسے کچھ دیر کیلئے آج بازار جانا ہے، اور مہرو سے کہا کہ وہ آج جلدی سے سو جائے تا کہ اسے کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، مہرو نے جونہی وہ کھانا کھایا اور اوپر سے پانی پیا تو اسے غنودگی محسوس ہونے لگی اور اچانک وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی، جب وہ اٹھی تو صبح اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ہمسایہ اب تک نہیں لوٹا تھا، اسے اپنا سر وزنی لگا، جلد ہی اس پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ اس کی دنیا لٹ چکی تھی، اس کی رات بھر آبرو ریزی کی گئی، اور وہ پیسے جو ہمسائے نے ان چار لڑکوں سے لیے تھے وہ اسی معاملے میں لیے تھے، وہ اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہی تھی، ہمسایہ اس کی نقدی اور سونا وغیرہ بھی چرا کر بھاگ گیا تھا، اب وہ بالکل تنہا اور بے سہارا ہو چکی تھی، اور اسے یہ بھی ڈر کھائے جا رہا تھا کہ کہیں ان لوگوں نے اپنے مکروہ فعل کی ویڈیو نہ بنا لی ہو، اسے ڈر تھا کہ اگر یہ بات اس کی امی تک پہنچی تو اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ یہ سب سوچنے کے بعد یہ سوچنے لگی کہ میرے ساتھ جو دھوکا ہونا تھا وہ تو ہو چکا، اب میں گھر بھی کیسے جاؤں؟ اب میرے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں، اسے یہ سب فکریں کھائی جا رہی تھیں، وہ ہمت کر کے اٹھی اور قریبی پولیس اسٹشین کی جانب چل دی کہ اب جو ہو گا دیکھا جائے گا


Post a Comment

0 Comments