Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ishq E Yazdaan By Gohar Arshad Last Episode 14

ناول:عشق یزداں

آخری قسط:(14)

ابو کو کہنے کی دیر تھی کہ انھوں نے تھوڑی دیر کے بعد موبائل مجھے دے دیا۔اب کیفیت کیا تھی وہ بیان کرنا میرے لیے محال ہے۔موبائل کو لے کر سوچتی رہی کہ اس کو کال کروں یا مسیج اور اگر میسج کرتی ہوں تو کیا کہوں گی؟؟ہو سکتا ہے وہ مسیج کا جواب نہ دے ہو سکتا ہے جواب دے تو؟؟ بہت لیٹ دے کیونکہ موبائل میں نے ابو کو واپس کرنا ہے۔ابھی اس کشمکش میں تھی کہ امی نے کہا جلدی بات کر کے موبائل واپس کروں تمہارے ابو سے صبر نہیں ہو رہا وہ بہت بے تاب ہیں۔خدا کے لیے جلدی کروں۔۔۔۔۔۔۔میں نے نمبر کو یاد کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کہاں دو تین سال گزار چکے تھے اور میں نے بھی کافی وقت سے موبائل کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔اس سے پہلے کبھی اس کی خیریت بھی دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی؟؟

کیونکہ میں اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں صرف میرا رب اور میں ہوتے ہیں۔ہر اک چیز کا براہ راست تعلق رب کی ذات سے ہوتا تھا۔میں نے اس کا حال بھی خود سے پوچھنا شروع کر دیا تھا۔میرے رب کی ذات کا اتنا احسان رہا 

کہ مجھے ہر بات کا اس کے حال کا اندازہ اس سے بات کیے اس کو دیکھے بغیر ہو جاتا تھا۔

اس رب سے جب بھی مانگا اس کے لیے پہلے مانگا اور رب کی ذات سے اک ہی عرض ہمیشہ رہی کہ میرے رب اس کو ہر تکلیف سے ہر دکھ درد سے بچائے رکھنا لیکن اتنا میں بھی جانتی ہوں

 اور جانتی تھی کہ جب آپ کی کوئی پسندیدہ شے کھو جائے تو انساں کو سکوں کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے۔لیکن پھر بھی دعا تو ضروری ہوتی ہے ناں۔

اس کا نمبر جب میں گھر سے تین سال پہلے آئی تھی اس وقت میرے پاس اک وارق پر لکھا ہوا تھا۔لیکن مجھے یاد آج آیا کہ وہ وراق کن کپڑوں میں ہے۔میں نے نمبر نکال،وہ بآسانی مجھے مل گیا۔

میں نے بڑی مشکل سے اس کو کال کی دل کی دھڑکن میں عجب ہنگامہ آرائی تھی،لب خشک ہوچکے تھے آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھی کہ اس کی آواز دوسری طرف سے آئی۔

السلام وعلیکم!

یہ سننے کی دیر تھی مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اس ہی کی آواز ہے،میری صرف سانس آہستہ اور تیز آواز سے  اس نے مجھے پہچان لیا تھا۔میری اس کے سلام کے بعد اک زور دار چیخ نکلی جس نے شاید سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا،گھر والے سب مجھے دیکھنے کے لیے بھاگے کہ کیا پتہ کیا ہوگیا ہے مجھے؟؟؟

میرے کان کے ساتھ موبائل دیکھ کر ان کو شاید سمجھ آگئی کہ مجھے کیا ہوا ہے؟؟

وہ سب واپس پلٹ گئے۔میں نے بات جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن الفاظ میری زباں کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔میں نے بس رونا جاری رکھا اور دوسری طرف سے بھی مسلسل رونے کی آواز آرہی تھی آخر کار اس نے اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے ہوئے بولنا شروع کیا پتہ ہے شفق میں نے تمہارے کال کا تمہارے میسج کا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔تین سال مسلسل جب بھی فون آتا کسی کا تو بھاگ کر دیکھتا شاید تم ہو لیکن کسی اور کا دیکھ کر اکثر مایوس ہو جاتا آپ سے کچھ گلہ بھی نہیں کہ غلطی سراسر میری ہے۔میں بغیر بتائے آپ کو گاؤں چلا گیا۔پھر فون بھی نہ کر سکا لیکن آپ ہی بتاؤ میں آپ کے گھر کال کر کے کیا کہتا ان کو۔۔۔۔۔۔

کہ آپ کی بیٹی میری ذمہ داری تھی اور میں اس کو بس سٹیشن پر بولا کر خود جا ہی نہیں سکا یا ان کو کہتا کہ غلطی ہو گئی مجھے سے۔۔۔۔۔۔۔۔

سب چیزیں سوچ کر پھر رابط نہ کرتا کہ تمہارے گھر والے پوچھے گئے کہ تم کہاں ہو تو کیا جواب دوں گا۔بس یار کچھ کہہ نہیں سکتا مجھے معاف کر دو میری وجہ سے تم کو اذیت اٹھانی پڑی لیکن میں بے بس تھا اسی رات جب تمہاری اور میری بات ہوئی سب کچھ طے پا گیا تھا اس وقت ہی  مجھے معلوم ہوا کہ میرے والد کا ہسپتال کے اندر انتقال ہو گیا ہے۔کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کیا ہو رہا ہے بس وہاں سے نکل کر ہسپتال پھر دوسرے دن ابو کی وفات کی وجہ سے مکمل ڈپریشن میں رہا رات کو جا کر سمجھ آئی کہ مجھے سے بڑی غلطی ہو گئی ہے 

لیکن اس وقت کوئی حل موجود نہیں تھا۔بس سٹاپ پر بھاگا۔ادھر ادھر پوچھا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔بس اک ہی دعا زیر لب رہی میرے مالک میرے خدایا اس کی عزت کی حفاظت کرنا 

اس کو محفوظ رکھنا ساری مصیبتوں پریشانیوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی کچھ بولو ناں یار میں ہی بول رہا ہوں۔

شفق اپنی ہچکیوں کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی میں ٹھیک ہوں مجھے آپ کی ذات سے کوئی گلہ نہیں آپ ٹھیک رہو۔۔۔۔۔۔۔بس رب سے یہی دعا رہی رب سے تعلق اتنا مضبوط ہو گیا کہ اس نے ہر سوال کا جواب دیا۔مجھے بس سٹاپ پر ابھی کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ ابو کے اک قریبی دوست آگئے تھے میرا بھی ان کے ساتھ اچھا تعلق تھا اک بہت ہی خوش مزاج اور ہمدرد انسان تھے۔انھوں نے مجھے کچھ بولنے کا موقع ہی نہیں دیا شاید وہ بھاپ گئے تھے کہ میں کچھ پریشانی میں ہوں۔انھوں نے مجھے ساتھ لیا اور اپنے گھر لے گئے انھوں نے میرا بہت خیال رکھا میں پچھلے تین سال سے ان کے گھر پر ہی ہوں انھوں نے میرے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا اور میری ہر بات ماننی آج ابو کی طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے روئے پڑے اور گھر والوں سے رابطے کا مجھے کہا کہ ابو تمہارے تمہارے وجہ سے بیمار ہیں تو میں نے ان کی باتوں سے بہت زیادہ اداس ہو گئی اور کل گھر والوں سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔ان کو میں نے کہا کہ ابو سے پہلے آپ سے بات کرنی ہے۔تو انھوں نے بخوشی اجازت دے دی ۔یار قسم سے کوئی ایسا دن نہیں گزارا کے آپ کی شدت سے یاد نہ آئی ہو لیکن کر بھی کیا سکتی تھی۔بس دل کو تسلی دیتی کہ تم جہاں بھی ہو ٹھیک ہو۔یار جب زندگی مہربان ہوتی ہے۔تو ہر الٹا کام بھی سیدھا ہو جاتا ہے۔اب میں فون رکھتی ہوں میں کل صبح دوبارہ کال کروں گی۔ابو کو بھی ابھی کال کرنی ہے سو وہ لوگ انتظار کر رہے ہیں میں موبائل ان کو دینے لگی ہوں خدا تمہیں ہر حال میں خوش رکھے۔۔۔۔؟؟؟؟

ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی لیکن کل میں انتظار کروں گا لازمی پھر کال کرنا

اللہ حافظ

میں آج معمول سے زیادہ خوش تھی چہرے پر ہر طرف مسکراہٹ بکھیری پڑی تھی۔ابو نے دیکھا تو مسکرائے اور کہنے لگے کہ والدین کو اپنی ذاتی انا کو بیچ میں نہیں لانا چاہیے بچوں کی شادی کے حوالے سے کیونکہ بچپن سے لے کر ہر چیز وہ بچوں کی مرضی سے کررہے ہوتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ ان کی شادی بھی ان کی مرضی سے کرے۔اب دیکھو ناں شفق کو ہمارے ساتھ کتنا عرصہ ہوگیا لیکن آج اس کی خوشی ناقابلِ بیان ہے۔

انھوں نے فون لیا اور اس الجھن میں کہ ابو سے کیا بات کرے۔وہ کیا کہے گئے کہ اچھا دوست تھا اتنی تکلیف کے باوجود اس نے ہمیں سب نہیں بتایا اور ہم روتے رہے۔سچ میں آج شفق پر کچھ غصہ آیا کہ اس نے بہت بڑی مصبیت میں پھسا دیا ہے۔آج میرے دوست کے سامنے مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ان کے سب سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں؟؟؟

 ابو کو فون کیا تو انھوں نے زیادہ انتظار نہ کروایا بلکہ فوراً ہی اٹھا لیا اب ابو کے ساتھ گفتگو شروع ہوگئی انھوں نے پہلی بات یہی ہوچھی یار میری شفق کا کسی کو کچھ پتہ ہو؟؟؟؟

تم کو پتہ ہے میری بیٹی کہاں ہے بتاؤ ناں ؟؟؟؟

ادھر سے انکل نے اسی وقت کہہ دیا مجھے پتہ ہے کہاں ہے بتا دوں؟؟

ابو نے کہا یار تم جانتے ہو میں سنجیدہ ہو کر پوچھ رہا ہوں مہربانی کروں مذاق مت کروں میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں میری اذیت کو مزید طول نہ دو

میں بھی سنجیدہ ہی ہوں آپ کی بیٹی جس دن گھر سے نکلی تھی............اس دن سے میرے پاس ہی ہے۔لیکن میری اک شرائط یاد رکھنا تم نہ اس سے کچھ پوچھوں گئے اور نہ مجھ سے؟؟؟؟

ابو خوشی سے بڑبڑائے کیا تم سچ کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔شفق کی ماں سنتی ہو،شفق مل گئی اور صحیح سلامت ہے۔

او خدایا تیرا کرم۔۔۔۔۔۔۔میری بچی ٹھیک ہے۔

ہاں بلکل صحیح سلامت ہے کل صبح اس کو تمہارے پاس لے کر آؤں گا؟؟

کیا وہ ابھی قریب ہے تمہارے۔۔۔۔۔۔مہربانی کرکے بات کروا دو مجھے سے اور رہا نہیں جا رہا؟؟؟

وہ سب ٹھیک ہے بات بھی کرلو لیکن اگر تم نے اس کو پچھلا کچھ پوچھ کر تنگ کیا تو میں اس کو واپس اپنے پاس لے آؤ گا۔تین سال سے وہ میرے پاس ہی ہے تو آگے بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

یہ لو شفق بیٹا بات کروں اپنے والد سے

السلام وعلیکم بیٹا کیسی ہو تم کوئی تکلیف پریشانی تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔مجھے تو لگتا ہے تم ہمیں بھول ہی گئی ہو اور بیٹا بڑوں کی باتوں کو دل پر نہیں لیتے غصے میں انسان کچھ بھی بول جاتا ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ تم اس طرح چھپتی پھرو؟؟؟؟

جی جی ابو بلکل ٹھیک ہوں خدا تعالیٰ کا بڑا کرم رہا ہے مجھ پر ،اس نے بچپن سے لے کر آج تک کبھی پریشان ہونے ہی نہیں دیا اور اب تو تعلق بھی کافی مضبوط ہوگیا ہے۔اب کی بات ہی کچھ اور ہے.

اچھا بیٹا صبح آؤ گی ناں 

مہربانی کرو انکار مت کرنا میں نے تمہارے ماضی کے بارے میں کچھ سوال نہیں کرنا؟؟؟

ہاں ہاں ضرور آؤ گی آپ لوگ مجھے پتہ نہیں معاف کرے یا نہ کرے

 لیکن ابو انسان کی زندگی میں اک وہ مقام آتا ہے کہ سب کچھ انساں اس کے لیے چھوڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

اس وقت جذبات کی شدت کی وجہ سے اس کو کوئی دوسرا راستہ سمجھ ہی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔اس کو خود تک کے وجود ہی خبر نہیں ہوتا سب کچھ محبوب کی مرضی کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔اور وہ محبت کا دعوی ہی کیا جو سختیاں نہ برداشت کر سکے۔میں بھی اسی طرح کی کیفیت میں چلی گئی تھی۔اور دوسرے لوگوں سے امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دی تھی۔

ہو سکتا ہے آپ مجھے اپنے گھر میں نہ رہنے دے بات بھی ٹھیک ہے جب اک لڑکی اپنے گھر کی دہلیز کو پھلانگ کر گزارتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس گھر سے اس کا کوئی تعلق کوئی راستہ نہیں بچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر ادھر انکل کو میری وجہ سے مسئلہ ہوا تو میں یہ گھر بھی چھوڑ کر چلی جاؤں گی؟؟

بیٹا ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔میں نے تم کو معاف کر دیا اور کوئی بھی بات میرے ذہن میں نہیں 

بس تم واپس آجاؤ۔اپنوں سے یوں روٹھ کر نہیں جایا جاتا ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر دیا جاتا ہے۔اور  مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہمارے بچے جن کو ہمارے ساتھ رہتے ہوئے۔اٹھارہ بیس سال ہوجاتے ہیں وہ ہم کو نہیں سمجھ پاتے اور اک چھ ماہ یا سال ساتھ رہنا والا شخص ہی سچا اور کل کائنات نظر آنے لگتا ہے۔یہ لو تمہاری امی بات کرنا چاہ رہی ہیں؟؟؟

ابو پلیز میں ابھی اس حالت میں نہیں ہوں کہ ان سے بات کر سکوں صبح آپ کے پاس آرہی ہوں تو وہاں باتیں ہوں گئی اللہ حافظ

اب یہ سب کہہ تو دیا لیکن امی کی حالت کیا ہو گئی مجھے اس کا اندازہ تھا۔وہ اگر چھوٹی سی بات کو لے کر ناراض ہوجائے تو ان میں فقط میں ہی منا سکتی تھی لیکن آج میں ہی ان سے بات نہیں کر رہی تھی۔سوچے کہ ان کے لیے کتنا اذیت ناک ہوگا۔

موبائل واپس دیا بھاگ کر کمرے میں گئی کمرے کے اندر تمام چیز اسی پرانی حالت میں تھی لیکن میرا آج مزاج کچھ عجیب سا تھا۔ہر طرف سے کچھ آوازیں میری جان لینے کے درپہ  تھی۔کھڑکیوں کے پردے اک تسلسل سے حرکت کر رہے تھی۔کمرے کے بلب کی روشنی بھی میری طرح آہستہ آہستہ مدھم ہو رہی تھی۔بستر پر آج کانٹوں کا ہونے کا احساس میری جسم میں اک نئی جہت پیدا کر رہا تھا۔

اور سو گئی دوسرے دن صبح کی ہواؤں کا اپنا ہی رنگ تھا ہر طرف پرندوں کی آوازیں دل و دماغ پر سکوں طاری کر رہی تھی۔شبنمی قطرے آہستہ آہستہ زمیں پر گر رہے تھے۔دریاوں کا پانی پوری شفاف طبعیت کے ساتھ موجود تھا۔ہر طرف برف ہی برف ہونا کا احساس ہوا۔یوں محسوس ہوا جیسے جسم میں مکمل سردی ہونا کا احساس ہوا

یہاں سے امی ابو نے ہمارے اصل گھر کی تیاریاں شروع کی ہوئی تھی۔ہم گھر سے نکلے اور تقریبآ دس بجے ہمارے گھر کے باہر تھے دروازہ کیا کھولا کہ امی بھاگ کر میرے سینے سے آلگی ان کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے وہی ابو جو پچھلے سات دن سے چارپائی پر تھے خود چل کر باہر آئے ہوئے تھے،دونوں بھائی چھوٹے بھی بہت خوش تھے۔کسی نے بھی کچھ نہیں کہا مجھے ابو نے سینے سے لگایا اور فقط اتنا بول پائے بیٹا اپنوں کی غلطیوں کو معاف کر دیا جاتا ہے۔مجھے معاف کرنا؟؟تم جو کہہ رہی تھی ٹھیک تھا ہم ہی غلط تھے۔آو اندر چلوں سب

ہم سب اندر گئے کھانا کھانے لگے دوپہر کا تو انکل نے ابو سے کہا اس کی شادی وہی ہوگئی جہاں یہ کہہ رہی تھی اک دم میرے ہوش اڑ گئے۔۔۔۔۔میں کچھ کہنا چاہ رہی تھی کہ انکل نے اشارہ کر کے چپ کروا دیا 

ابو نے بھی کہہ دیا جیسا تم بہتر سمجھو کیونکہ اب میں بیٹی کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔انکل نے کہا سارے انتظامات میں کروں گا۔ابو نے کہا اک شرائط یہ ہے کہ اک سال پورا بیٹی کی شادی نہیں کروں گا۔وہ صرف میرے پاس رہے گی بس۔انکل نے حامی بھر لی 

فون دے دیا مجھے بولا کر اور اشارہ بھی کروا دیا کہ اس سے بات کرو 

میں نے اس کو کال کی تو آگے سے بڑے تحمل سے کہتا ہے رب کے دیر ہے۔۔۔۔  ۔؟؟؟

ہاں وہ تو ہے لیکن تم کو اک خوش خبری دینی تھی ابو شادی کے لیے مان گئے ہیں۔وہ مسکرایا اور اس کے بولنے کے انداز سے لگتا تھا رقص کر رہا ہے 

اسی کی امی دوسرے دن آگئی۔۔۔۔رشتہ لے کر ابو نے خوشی خوشی قبول کیا اور وہ اک دو دن ہمارے گھر رہے سب بھی خوش میں بھی اور۔۔۔۔۔؟؟؟

خدا کی قدرت پر یقین اور کامل ہو گیا کہ وہ ہر چیز ہمیں عطا کرتا ہے لیکن اس وقت جب ہم اس کی قدر جاننے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

                             

           ختم شدہ

Post a Comment

0 Comments