ناول۔۔لاحاصل سے حاصل تک۔
ناول نگار۔۔فوزیہ کنول۔
قسط۔۔#19
" نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں دہلیز پر جمی ہوئی تھیں، شاید اسے کسی کے آنے کا انتظار ہو۔۔۔" وہ نہیں جانتی تھی کہ اس انتظار کا مطلب کیا ہے, وہ اپنے دل کی پکاروں کو رد نہیں کر سکتی تھی ،پھر اسے کوئی پاگل سمجھے یا دیوانہ۔۔۔۔"
محبت کچھ بھی نہیں جانتی۔۔۔" کچھ نہیں سمجھتی۔بس وہ چپ چاپ محبت کی انگلی پکڑے ان انجان راستوں پر چلے جارہی تھی۔
بس مجھے اسکے ساتھ رہنا ہے۔۔۔"
آسکے ساتھ جینا ہے۔۔۔"
اسے ہی ٹوٹ کر چاہنا ہے۔
اسی کا ہوکر رہنا ہے۔
اور وہ ایسا ہی کررہی تھی،وہ ساتھ نبھا رہی تھی۔۔۔۔"
اس کے ارد گرد مہمانوں کا ہجوم لگا ہوا تھا مگر اسے شدت سے کسی کی کمی محسوس ہو رہی تھی اسکے لبوں سے مسکراہٹ معدوم ہو چکی تھی، اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے کھل کے مسکرائی نہ ہو۔
اسکی سوچوں پہ کسی نے بند باندھ رکھا ہو جیسے۔
اس کے خیالوں پہ کوئی پہرے لگائے بیٹھا ہوں جیسے ۔
اسے کسی کے حصار نے گھیرے میں لے رکھاہو جیسے۔
کسی کے لفظوں کے جال میں پھنس گئی ہو جیسے۔
وہ کسی سے کھل کر بات نہیں کر پا رہی تھی۔
وہ اپنے لہجے میں سلوٹیں محسوس کر رہی تھی۔
اس کے گرد سرد مہری کا حصار بنا رکھا تھا کسی کی بے پناہ محبت نے۔۔۔۔"
کیا یہ محبت ہے۔۔۔۔؟
کیا ایسی ہوتی ہے محبت۔۔۔؟
اس نے ایک گہری سانس خارج کی۔۔۔۔۔"
ارے کنول تم یہاں بیٹھی ہو۔۔۔۔۔۔"
ہم کب سے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں،پارسا نے گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کنول کو خیالی دنیا سے باہر کچھنچا۔ پارسا مجھے ایک بات پریشان کئے ہوئے ہے۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟
یار ابھی تک رضا خالو کی فیملی نہیں آئی۔۔۔۔؟
اوہ۔۔۔۔۔"
اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔۔" پریشانی کی وجہ یہ تھی...."
رضا خالو نہیں آئے یا سیدھے سیدھے یہ کہو کہ تمہیں سالار کا انتظار ہے،پارسا نے کنول کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔۔" پاگل ہو تم..."
پاگل ۔۔۔"بالکل پاگل"پارسا نے کنول کے معصوم چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔۔۔"
اے کاش تم اس گھڑی کچھ اور ہی مانگ لیتی کنول۔۔۔۔" وہ دیکھو سامنے....پارسا نے مین گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔"
ہائے میرا شہزادہ ۔۔۔۔۔"
پارسا یہ لڑکا میری جان لینے کے کر چھوڑے گا۔۔۔"
خواہاں ہے یہ میری جان لینے کا۔۔۔"
دیکھو میری پسند کا کلر پہن کر آ یا ہے اور کیا غضب لگ رہا ہے۔۔۔"
ہے کوئی میرے ہیرو کے مقابل۔۔۔۔۔؟
کنول نے فحریہ دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔۔۔"
تمہیں کیا لگتا ہے وہ تمہیں پیار کرتا ہے پارسا نے اسکی چمکیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔۔"
ہاں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔۔کنول پراعتماد لہجے میں بولی۔
سالار ایک بھنورے کی مانند ہے کنول جو ہر پھول پر بیٹھنے کا خواہش مند رہتا ہے۔۔۔"
جانے تم کب سمجھو گی۔۔۔۔؟
پلیز اس سے آگے ایک لفظ نہیں پارسا ۔۔۔"
اس نے اپنے تھکے ہوئے چہرے کا رخ دوسری جانب پھیرا۔۔۔
جھلی ہوگئی ہے تو کنول۔۔۔۔۔"پارسا اسے کم عقلوں کی لسٹ میں شامل کرتے ہوئے آ گے بڑھ گئ۔
اور وہ خود کو سالار کی آمد کا یقین دلانے میں مصروف ہو گی۔۔۔"
میں اس یقین کو کبھی نہیں ٹوٹنے دوں گی کہ سالار صرف اور صرف میرا ہے ،وہ صرف اور صرف مجھ سے محبت کرتا ہے، نہیں نہیں سالار صرف اور صرف میرا ہے۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی، اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی تیسری انگلی میں موجود انگوٹھی سے کھیل رہی تھی اسکی نگاہیں سامنے کھڑے سالار اور مسرت پر جمی تھیں،مسرت شادی پر آ ئی ہوئی کنول کی دور کی کزن تھی جو بہت ہی خوبصورت تھی اور شاید سالار کے دل کو بھا بھی گئ تھی۔۔"
سالار کو اس کے ساتھ ہنستا اور باتیں کرتا دیکھ کر کنول کا خون کھول رہا تھا،دل جل رہا تھا، آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھیں، اس نے ہمت کر کے کے ان کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔"اسکی ہمت کیسے ہوئی میرے سالار سے بات کرنے کی ۔۔۔"وہ بڑبڑاتی جارہی تھی۔۔۔۔"
کیسے جانتی ہو تم سالار کو۔۔۔؟ وہ جل کر بولی۔۔۔"
نہیں۔۔نہیں۔۔۔کنول...."
ہمارا تو تعارف ابھی ابھی ہوا ہے،کس قدر خوش مزاج ہیں سالار۔۔۔۔"
آ پ سے مل کر بہت اچھا لگا سالار صاحب۔۔"
پھر ملاقات ہوگی۔۔۔"
او ۔۔۔ہیلو۔۔۔اور تم سے مل کر سالار کو بالکل اچھا نہیں لگا،اور ہاں دوبارہ ملنے کی دل میں غلط فہمی پالنا بھی نہیں۔۔۔۔"
بھئی ہم تو محبت کا جواب محبت سے دینے کے عادی ہیں۔۔۔"
ارے جاؤ، جاؤ کام کرو اپنا۔۔۔"
کہیں میں دو اور دو چار کے بیچ میں تو نہیں آرہی۔۔۔۔؟ مسرت رسانیت سے بولی...."
اس سے کہیں ہٹ کر ہے ہماری محبت ۔۔۔۔"
وہ ہولے سے مسکرائی۔۔۔"
اس نے چونکتے ہوئے دیکھا۔۔۔"
کیا بے پناہ محبت ہے تم دونوں میں۔۔۔؟
میرے خیال میں اب تمہیں پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اوکے بابا۔۔۔۔"
کنول نے سالار پر پورا پورا حق جتانا چاہا۔
مسرت نے پیچھے مڑ کر ضرور دیکھا مگر مسکرا دی اسے کنول کی باتیں بالکل بری نہ لگیں تھیں۔
لیکن بہت ہی جلد کنول کو یہ احساس ہوا کہ اس کے آنے اور اسکی باتوں نے سالار کے موڈ کو خراب کر دیا تھا۔
جیسے وہ اپنے آپ کو کنول کا اسیر محسوس کررہا ہو۔
اسکی چاہتوں کے جال سے نکلنے کی کوشش کررہا ہو۔
جیسے کوئی قیدی پرندہ اڑان بھرنا چاہتا ہو۔
کنول اور سالار نے حال کا رخ کیا ۔۔۔۔"
اس کے لہجے میں خفگی تھی مگر سالار تو جیسے کہیں کھویا ہوا لگ رہا تھا۔۔۔"
اور وہ کنول سے نظریں چرا رہا تھا ۔۔۔"
یہ سب کیا تھا سالار۔۔۔۔؟
اس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔۔"
ہاں۔۔۔۔" کچھ نہیں یار تم تو ایسے ہی بلا وجہ ناراض ہونے لگتی ہو...."
۔اس نے مسکرا کر ہولے سے اسکا ہاتھ تھام لیا،مگر اسکے دل و دماغ میں تو ابھی تک مسرت کی میٹھی باتیں رس گھول رہی تھیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔"
0 Comments