Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat By Sidra Mohsin Episode 12

قسط #12

عافیہ روحیل۔کو اپنے ساتھ ایک ہوٹل لے جاتی ہے وہاں اس کو ایک کمرے میں ٹھہراتی ہے اس کو آرام کرنے کو کہ کر جب وہ جانے لگتی ہے تو  روحیل اسے روک لیتا ہے

جب وہ اس کے روکنے کی وجہ پوچھتی ہے تو وہ پوچھتا یے کہ وہ اس کے لئے یہ سب کیوں کر رہی ہے عافیہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تھپکتی ہے اور کہتی یے کہ 

دیکھو روحیل ماضی میں جو ہوا وہ ہمارا مقدر تھا اور مقدر بھی کبھی کوئ بدل سکا ہے؟ ہم تینوں اور ہم سے جڑے اور ہمارے جیسے تمام لوگ جن کا تعلق اس دلدل سے ہے جہاں کوئ ایک بار قدم رکھ کے تو اندر دھنستا چلا جاتا ہے اور پھر اس دلدل میں موجود مخفی تمام تر وحشی گروہ ایک ایک پور نوچ ڈالتا ہے ان کو ہمارے جسموں سے نکلنے والا لہو تب تک سکون نہیں دیتا جب تک وہ ہمارے وجود کو انگاروں پر لوٹتے دیکھ لیں ۔۔۔ روحیل ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں میں یہ ہی جان پائ کہ ہم۔جتنا بھی ماضی کو دھکیل کر آگے بھی بڑھ جائیں تو بھی اس سے جدا نہیں ہوپاتے اس کی جھلکیاں ہمارے ذہن پر نقش ہوتی ہیں جو وقتاً فوقتاً خود کو بے خیالی کے پردے پر ہوشمندی کو سہارا دینے کو خود کو ظاہر کرتی ہیں 

میں بھی تمہاری مدد اسی لئے کر رہی ہوں کیونکہ تم بھی تو ستاۓ ہوۓ ہو ہماری طرح ٹھکراۓ ہوۓ ہو اس دنیا نے تمہاری بھی پاک صاف نیک شناخت کو قبول نہیں کیا 

تو تم کو تنہا چھوڑنے کا مطلب ہے خود کو تنہا چھوڑنا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو تم اب آرام کرو میں شام کو آؤں گی تمہارے لئے کچھ ڈھنگ کا لے کر اور ہاں مجھے بہت سارے سوالات کے جواب چاہیے تو خود کو تیار رکھنا کیونکہ میں نے تمہیں جھوٹ کے سہارے لے کر وقت گزاری کرتے دوسروں کو اذیت دیتے بھی دیکھا ہے تو تم میرے ساتھ ایسا کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔ بس یاد رکھنا کہ میں وہی عافیہ ہوں جو اگر اپنی نظر میں اہم بنا کر فرش سے عرش تک لے جاتی ہے تو اس کے ساتھ دغا کی صورت میں پھر فرش سے عرش پر لانا بھی اچھے سے جانتی ہے ۔۔۔ 

دروازہ بند کرکے اسی دروازے سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کیے بھنوں کو اچکاۓ سینے پر ہاتھ رکھے گہری سانس لیتی ہے گویا وہ کچھ لمحوں کے لئے اس مشکل وقت اور حالات میں خود کو گہری سانس سے اس عالم میں لے جاتی ہے جہاں کوئ سوچ اس کا پیچھا نہیں کرتی ۔۔۔۔


لیکن وہ کہتے ہیں  نا کہ جن کی پوری زندگی کانٹوں پر چل کر گزر جانی ہو ان کو کچھ لمحوں کے آسان ہموار راستے سکون نہیں دیتے


عافیہ کی زندگی بھی ایسی ہی تھی ساری عمر جلنے کے بعد اس کو ابرار نے اس کو کچھ وقت کا سکون دیا لیکن وہ سکون تمام عمر کا مداوا نہ بن سکا ۔۔۔

وہ دروازے گہری سانس کے بعد تھکی ہاری آنکھیں کھولتی ہے ٹیک ہٹا کر اپنے بالوں کو سمیٹتی خود کو متوازن کرتی چلنے لگتی ہے ۔۔۔ 

چلتے چلتے ہر بیتے  تلخ و مسرت لمحے کا عکس اس کے ہمراہ تھا وہ سوچتی سمجھتی وہاں سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھتی ہے اور مال کی جانب گاڑی گھماتی یے 

وہاں ابرار مسلسل شش و پنج میں مبتلا تھا وہ عافیہ اور اس کی سوچ کو سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا اس کو وہ ردعمل پریشان کر رہا تھا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ عافیہ کوئ بھی قدم کوئ بھی اظہار یا کوئ ردعمل یونہی نہیں دیتی کچھ نہ کچھ وجہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کا ذہن مثبت سوچ سے انکار کرتا منفی سوچ کو بڑھاوا دے رہا تھا 


وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کو رافیہ کی آواز آئ تو بیہوشی میں صرف ابرار کا نام لے رہی تھی اس کی آواز سے وہ چونک گیا اور فوراً اس کے پاس گیا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دوسرے ہاتھ میں اس کا ہاتگ پکڑ کر اس کے ماتھے پربوسہ دیتا میں یہیں ہوں میری رافیہ میں یہیں ہوں کہنے لگا۔۔۔

رافیہ نیم بیہوش تھی ابرار کی آواز سننے کے باوجود بھی کچھ کہ نہیں پارہی تھی بس اس کا نام پکارتی جا رہی تھی اور وہ اس کو دیکھتا مسکرا رہا تھا وہ واقعی اس سے بہت محبت کرتا تھا ۔۔۔۔ 

اتنے میں ڈاکٹر آتی ہے روٹین کے معائنے کے لئے تو وہ دیکھ ک حیران ہوجاتی ہیں کہ رافیعہ نے جلدی ریکور کر لیا ہے وہ اس کا چیک اپ کرتی ہے پھر ابرار کو اس کا خیال رکھنے کو کہتی اس کو نارمل وارڈ میں شفٹ کرنے کو کہتی ہے 

عافیہ شام کو کپڑے کچھ ضرورت کا سامان لے کر روحیل کے پاس پہنچتی ہے دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اسے کچھ آوازیں آرہی۔ تھیں اس نے غور سے سنا تو کسی لڑکی کی آواز آرہی تھی تو اس نے فوراً دروازہ کھولا تو سامنے ایک اور حسینہ دیکھی۔۔۔۔۔ جو روحیل کی قربت میں باریک شفون کی ساڑھی میں ملبوس تھی اور روحیل اس کی زلفیں سہلا رہا تھا اور عافیہ کی کم عقلی پر ہنس رہے تھے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments