Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Manqabat By Sidra Mohsin Episode 13 - Read Online

منقبت 

قسط #13

زندگی کتنی عجیب ہے یہ ہمیں اپنوں کے وہ روپ دکھاتی ہے جس کا تصور ہم عمر بھر نہیں کر سکتے ۔۔۔ جن کے لئے جان قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں وہ ہماری جان نثاری کا مزاخ بناتے ہیں ۔۔۔۔ انسان ہی انسان کے جذبات احساسات کا قاتل ہے ۔۔۔ اور آج یہ ثابت ہو چکا ۔۔۔

روحیل نہ بدل سکا  بھلا وہ کیسے بدل سکتا تھا فطرت بھی کبھی بدلتی ہے بھلا ۔۔۔ وہ اس کیچڑ سے نکل آنے پر بھی اس کیچڑ کا ہی رہا ۔۔۔ کتنی مصائب سے مقابلہ کرنے کے بعد جو عزت کی چادر ملی اس نے تو اس کا بھی مان نہ رکھا ۔۔۔۔

عافیہ کے اندر داخل ہونے پر روحیل اور وہ لڑکی بوکھلا گۓ گویا ان کی سب چوڑیوں کا اج ایک ساتھ ہی خلاصہ ہونا تھا 

اس لڑکی نے خود کو سمیٹا اور اپنا سامان اکٹھا کیا اور عافیہ کی سائیڈ سے ہوتی باہر چلی گئ ۔۔۔ روحیل شرمندہ سا منہ چھپاۓ کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔

عافیہ ابھی خواص خمسہ میں ہی کہاں تھی وہ تو سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ کتنے دھوکے اور کھانے ہیں کتنے چہرے بے نقاب ہونے ہیں ۔۔۔ وہ اس مصلحت کو نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ جب آپ مضبوط ہوتے یا سب کو دکھاتے ہو کہ ہم۔مضبوط ہیں تبھی کیوں تمام تر پریشانیاں تمام تر تکالیف اپ کے کاندھوں پر آن پڑتی ہیں ۔۔۔

عافیہ نے خود سے کہا ۔۔۔

نہیں میں کمزور نہیں ۔۔نہیں میں عافیہ ٹوٹ کر بکھرنے والوں میں سے نہیں ۔۔۔ اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور روحیل کی جانب بڑھی۔۔۔

روحیل اسے آتا دیکھ کرسی سے کھڑا ہوگیا ۔۔۔عافیہ اس کے پاس رکی اور اس کے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔۔ روحیل نے اپنا ہاتھ اپنے گال پر رکھا اور اس کو غور سے دیکھا۔۔۔۔ غصہ اسے آ بھی کیسے سکتا تھا کیونکہ غصہ آنے کے لئے غیرت کا ہونا ضروری ہے اور غیرت اس میں کسی صورت  

موجود نہ تھی ۔۔۔ درحقیقت وہ چونک گیا تھا کہ ایک وقت تھا وہ لڑکی جو اس کے سامنے چوں بھی نہیں کرتی تھی آج اسی نے اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا ۔۔۔۔م

وہ ساکت کھڑا اسے دیکھ ریا تھا اور وہ آنسو کو آنکھوں میں دبوچے غصے سے لال ہو رہی تھی ۔۔۔ 


جب ہمیں کوئ دھوکہ دیتا یے تو تکلیف ہوتی ہے لیکن جب کوئ دھوکہ دینے پر ہنستا ہے زمانے کو ہمارے یقین ہرنے کی نادانی کے قصے بڑی شوخیوں کے ساتھ سناتا ہے تو تکلیف نہیں ۔۔۔ بلکہ کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت ہوتی ہے ۔۔۔۔


عافیہ بھی اذیت میں تھی کہ جس کو مداوا گمان کر رہی تھی وہ زخم کو کرید گیا ۔۔۔۔

عافیہ نے روحیل کا گریبان پکڑ اور اس سے سوال کیا

کیوں؟۔   کیوں تم نے اسی راہ کو چننے ۔۔۔ ہمیں دھوکہ دینے کا سوچا ۔۔۔ کیوں نہیں بتایا کہ تم اب بھی وہی غلیظ روحیل ہو اسی بازار کے وہی بروکر ۔۔۔ جو عورت کے جسم کو فروش کر کے اپنے پیٹ کی بھوک کو۔مٹاتا ہے وہ جو ہر عورت کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے ۔۔۔ عورت کے جسم کے زاویوں سے لطف اٹھاتا ۔۔۔ عورت کی قیمت لگاتا۔۔ ۔۔ ارے مجھے تو لگا تھا کہ شاید کچھ غیرت آچکی ہے تم میں وہ جو  عزت کے چند سال گزارے اس سے تمہیں سکون ملا ہوگا لیکن نہیں تم تو وہی گندے کیڑے ہی رہے ویسے غلیظ ہی رہے ۔۔۔

روحیل عافیہ کا ہاتھ اپنے گریبان سے چھڑواتا اپنے چہرے کے تاثر بدلتا حیرانی سے یکدم  ڈھٹائی سے اپنے عمل کا اقرار کرتا اسے پیچھے دھکیلتا ہے۔۔ 

کہ ہاں میں نہیں بدل سکا خود کو ۔۔ اور جانتی ہو کیوں ؟ کیونکہ یہاں اس معاشرے کے امیر زادوں عزت داروں نے مجھے عزت سے رہنے نہیں دیا ۔۔۔۔ 

روحیل نے عافیہ کے بازوؤں پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کی اور اس کو جھنجھوڑتے ہوۓ کہا   !

تمہیں کیا ملا ہے عزت پاکر ؟ رافیعہ کا جو حال ہے وہ بھی ایک عزت دار کے ہاتھوں ہی ہوا ہے نا ۔۔۔ یہ عزت دار لوگ بڑے ہی کم ظرف ہوتے ہیں اکثر ۔۔۔ اگر تمہیں ابرار مل گیا تو تم نے سمجھ لیا کہ اس بازار سے باہر ساری دنیا اس جیسی ہے؟

نہیں عافیہ ایسا نہیں۔۔۔۔۔

روحیل نے عافیہ کے بازوؤں پر اپنے ہاتھوں کی گرفت کمزور کی اور اسے پیچھے کیا پھر وہ اہنے کمرے کی کھڑکی کی جانب بڑھا اور چمکتی دھوپ کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔ وہ دھوپ اس کے چہرے کو کچھ گرمائش دے رہی تھی وہ اس کے چہرے پر بہتے اشکوں کو موتی کی شبیہ دے رہی تھی


جانتی ہو عافیہ ہم۔اس ماحول سے باہر نکل کر آزاد سانس تو لی لیکن آزاد نہ ہو سکے کیونکہ اس معاشرے نے سورج کی کرنوں کو بھی ہم تک آنے سے پہلے اپ ی سوچ اپنے زاویوں اور اپنے معیار کی اونچی عمارتوں کے زریعے روک دیا ۔۔۔ کہ ہم پہلے ان کے معیار پر اتریں گے تو ہی عزت ملے گی ہمیں اپنا آج سنوار کر اپنا مستقبل بدلنے کی اجازت ملے گی 


جب ہم کہتے ہیں نا کہ ہمیں زمانے کی فکر نہیں ۔۔۔۔ بس اسی لمحے سے ہم زمانے کی فکر شروع کرتے ہیں اور زمانہ کوئ اور نہیں ہم تم اور ہمارے اہنے ہی ہیں ۔۔۔


ایک گہری سانس لینے کے بعد  روحیل اس کھڑکی سے مڑتا عافیہ کے قریب رکھی ہوئ کرسی پر بیٹھ گیا اور سر جھکاۓ  اپنی انگلیوں کو مڑوڑتے ہوۓ کہنے لگا ۔۔۔

سر جھکاۓ بیٹھا ہوں تو یہ مت سمجھنا کہ میں شرمندہ ہوں ۔۔۔۔ یہ درد سے بوجھل شکستہ زات بھی تو ہو سکتی ہے نا جس نے میرے وجود کو اتنا بھاری کردیا ہے کہ سر بھی نہیں اٹھا سکتا مجھے لگتا ہے کسی دن یونہی جان نکل جاۓ گی اور لوگ کہیں گے ۔۔۔ پشیمان تھا اپنے ماضی پر کوشش کی اس نے بدلنے کی خود کو لیکن فطرتاً غلیظ جگہ کے پلے غلیظ ہی رہا کرتے ہیں خصلتیں کہاں بدلتی ہیں ۔۔

لیکن وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا مجھے انتخاب نہیں کرنے دیا بلکہ مجھے تو زلالت کے  ٹوکرے میں لدے طعنوں سے نوازا گیا 

تم دونوں سے الگ ہونے کے بعد میں نے بہت  کوشش کی ۔۔۔ کہ کچھ بھی ایسانہ ہو جیسے ہو چکا تھا بڑے صاحب یعنی ابرار صاحب نے ہمیں سنبھالا ۔۔۔ نائیکہ کی اور اس کے بھیجے گنڈوں کی فکر کئے بغیر ہمیں اس دلدل سے نکالا تم دونوں سےنکاح کیا

مجھے جب دوسرے شہر بھیجا گیا تو میں نے ایک کمرہ کراۓ پر لیا وہاں رہنے کو ٹھکانہ تو ملا لیکن روزگار نہ ملا کھانے کو روٹی نہ تھی تو سوچا جو باقی پیسے بچے ہیں کچھ کام کرلوں کیونکہ محنت والے کام کا تجربہ نہیں تھا تو میں نے کریانے کی دکان ڈالی وہاں ایک دوست بن گیا دوست بھی کیا تھا وہ تو بس مجھ سے میرا ماضی کرید کر اپنے لئے ایک مشغلہ ڈھونڈنے آیا تھا۔۔۔

میں عزت محبت خلوص کا بھوکا اس کو بہترین ساتھی مان کر اپنے ماضی کی کچھ جھلکیوں سے نواز بیٹھا  مگر اس سے وعدہ لیا کہ ان سب کی خبر کسی کو نہ ہونے پاۓ ۔۔۔

وہ تو کان کا کچا پیٹ کا ہلکا نکلا اس نے سب لڑکوں میں باتیں مشہور کردیں ۔۔۔۔ وہاں اکثر لڑکے آتے تو مجھے چھیڑنے لگتے ۔۔۔ ناجانے کیوں ہم لوگوں کی زات میں کچھ ایسی حرکات مستقل مسکن بنا لیتی ہیں کہ ہم کہیں بھی ہوں لوگ ہمیں پہچان ہی لیتے ہیں ۔۔۔

کبھی مجھے اشارے کرتے کبھی مجھے لڑکیوں کا پوچھتے ۔۔۔ کبھی کوئ غلاظت بکتا اور اگر میں کچھ کہتا تو وہ مجھے گندی باتیں کہتے طعنے دیتے ۔۔۔

میں نے بہت جھیلا بہت برداشت کیا ۔۔۔ جب میری ہمت ٹوٹ گئ تو سب بیچ کر  دوسرے شہر چلا گیا  ۔۔۔ اور یوں مارا مارا پھرتا رہا کہیں لوگوں کی نظریں کہیں ان کے لفظوں کے نشتر ۔۔۔ کہیں نائیکہ کے لوگ تو کہیں موت کا خوف ۔۔۔

ہم عزت محبت خلوص کے بھوکے لوگ بڑے عجیب ہوتے ہیں کسی کے ہاتھ تھام کر زرا سا سہارا دینے  پر سمجھتے ہیں کہ یہ عمر بھر ساتھ نبھاۓ گا 

ارے ۔۔۔ جب اگلے لمحے کا بھروسہ نہیں تو اس ساتھ کا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔

مجھے ایک لڑکی ملی وہ یوں بھی میری طرح بے گھر تھی 

عافیہ تم جانتی ہو؟ 

ہم سمجھتے ہیں بے گھر وہ ہوتا ہے جس کے پاس کوئ گھر نہیں جبکہ در حقیقت بے گھر وہ ہوتا ہے جس کے لئے کوئ گھر پر نہیں ۔۔۔ ایک خالی مکان بھلا گھر کہاں ہوتا ہے جہاں چار دیواری ہو اور اپ ۔۔۔ اور کوئ پوچھنے والا بھی نہ ہو ۔۔۔


تو میں نے سوچا کہ اس کے ساتھ اپنی ایک زندگانی شروع کرتا ہوں لیکن وہ بھی میرے ساتھ کہاں نبھا پائ ۔۔۔ 

میں جتنی محبت جتنی چاہت لّٹا سکتا تھا لٹا دی لیکن اس کو تو یہ بھی کم لگی ۔۔۔ اس نے اپنا مطلب پورا ہونے اپنی بات منوانے نکھرے اٹھوانے کے بعد میرے خلوص کو روند کر کسی اور کی محبوبہ بن گئ ۔۔۔

میں دل برداشتہ تھا لیکن پھر بھی میں نے وہ راہ نہ اختیار کی جو چھوڑ چکا تھا 

لیکن کوئ ایک کوئ ایک تو میرا ساتھ دیتا کسی نے بھی ساتھ نہ دیا ۔۔۔ جب صرف دھتکار ملے تو انسان کے پاس اس کی زات بھی نہیں بچتی ۔۔۔

یہ جو تم نے لڑکی دیکھی ہے نہ آج مجھے پسند ہے ہم کبھی کبھی ملتے ہیں میں چاہتا ہوں اسے لیکن اقرار نہیں کرتا کہ کہیں یہ بھی نہ چلی جاۓ ہم میں قربت ہے انتہائ جذبات ہیں لیکن پھر بھی ہم اقرار نہیں کرتے کہ کہیں باقی احساسات ماند نہ پڑ جائیں ۔۔۔۔۔

عافیہ ساکت بس اس کو محو خاموشی سے سنتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اٹھ کر اس کے پاس آئ گھٹنوں کے بل بیٹھی اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی اس کا نام پکارتی یے ۔۔۔

روحیل۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments