Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Momin By Ayesha Jabeen Episode 14

عائشہ جبین 

مومن 

قسط وہ کمرے میں داخل ہوا تھا اس کا دماغ بری طرح منتشر تھا وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کے پاس آکر روکا تھا بولنے کے وہ جیسے الفاظوں کو ترتیب دے رہا تھا یا پھر وہ الفاظ جمع کرنے کی کوشش کررہاتھا یہ سب وہ خود بھی سمجنے سے قاصر تھا ۔

"میں کوشش کروں گا آپ کی حق تلفی نا ہو مگر ۔۔۔۔۔مجھے نہیں لگتا میں آپ کو آپ کا مقام اور عزت ومحبت دے سکوں گا  ۔"

وہ بڑے نپے تلے انداز میں بولا رہاتھا جب اس کی بات سن کر دعا نے جھٹ سے اپنا گھونگھٹ اٹھا اور بولی 

" مجھے تم سے کچھ  چاہئے بھی نہیں جو تم کرچکے ہو وہ کافی اب اس کے بعد مجھے تم سے کوئی سروکار  میری طرف سے جو مرضی کرتے رہو مگر مجھ سے دور رہو اس میں بہتری ہے ۔"

وہ ایک لفظ چبا چبا کر بول رہی تھی ادھر سانس روکے اس کو دیکھ رہا تھا اس نے آنکھ جھپکانا بھی  گوارہ نہیں کیا کہ اگروہ ایسا کرتا ہے تو شاید وہ اسکی نظروں سے دور ہوجائے گی  وہ جس کو جانے کب سے اور کہاں کہاں تلاش کرتا رہاتھا ۔مومن کو اس کو اس روپ میں دیکھ  کر بے انتہا خوشی ہوئی تھی ۔مومن نے دعا کو بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھا اور کمرے سے محلقہ دوسرے چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا تھا ۔اس کو ایسے جاتے دیکھ کر دعا واپس بیڈ پر بیٹھی اور منہ بڑ بڑانے لگی ۔


مومن نے وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑا ہوکر نیت کرکے تکبیر کے لیے ہاتھ  اٹھائے تھے کہ آنسو کو ریلہ س کی آنکھوں میں امڈ آیا تھا ۔

اس نے بڑی تسلی سے شکرانے کے نفل ادا کیے اب وہ دوزانو بیھٹا ہوا تھا اپنے ہاتھوں کو اس نے اس مالک کے سامنے پھیلایا تھا جس نے اس کو آج اتنی بڑی نعمت سے نوازا تھا ۔وہ لڑکی جس کو وہ بے پناہ چاہنے لگا تھا وہ جو اس کی زندگی بن گئی تھی وہ تب اس کی زندگی میں شامل کردی گئی تھی جب اس کو امید بھی نا تھی ۔وہ کیسے نا اس خالق کا شکرادا کرتاآنسو کی ایک لڑی تھی جو اس کی آنکھوں سے جاری تھی ۔

" میں کیسے شکرادا کروں میرے الله  میرے پاس تو الفاظ بھی  نہیں ہیں میں تو اس قابل بھی نہیں تھا کہ جو کرم کیا گیا مجھ پر میں نے کبھی کوئی  ایسی نیکی نہیں کی جس کا صلہ مجھے  دعا کی صورت میں دیا گیا ہے ۔میرے الله جیسے اس کو میری زندگی میں شامل کیا ہے ویسے ہی اس کے دل میں میری محبت اتار دے  اس کو اس بات کا یقین کرادے کہ میں اس کا گناہ گار نہیں ہوں میں نے اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا وہ آج بھی  ویسے ہی پاک ہے".

وہ رو رہاتھا اپنے رب سے باتیں کرتے ہوئے رونا اس کو اپنا دکھ اور اپنی پریشانی بتانا  اس سے مدد مانگا اس کا مزہ ہی الگ ہے انسان بلکل ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے جب کہ وہ جانتا ہے یہ سب تو اس کا رب جانتا ہے مگر نجانے کیوں اپنی ہرپریشانی اس مالک کو بتا کر انسان جیسے ہر غم ،فکر،پریشانی سے آزاد ہوجاتا ہے ۔

خوب رونے اور دعا مکمل ہونے کے بعد وہ اٹھا اور اپنے کمرے میں آیا جہاں صرف نائٹ بلب جل رہا تھا اور سر تک کمبل تانے سورہی تھی ۔مومن نے ایک ٹھنڈی سانس بھری خود کو آنے والے وقت کے تیار ہونے سگنل دیا اور بیڈ کی دوسری طرف جاکر لیٹ گیاتھا ۔نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔وہ سوچوں کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا ۔نجانے کتنا وقت بیت گیا تھا جب دعا کی رونے کی آواز پر وہ اس کی طرف دیکھنے لگا وہ رو رہی تھی نیند میں تھی نجانے کیا بول رہی تھی اس کی آواز بہت ہلکی تھی ۔

"دعا!کیا ہوا ہے کوئی برا خواب دیکھا ہے بات سنو میری  آنکھیں  کھولو دعا میری بات سنو۔۔۔۔۔۔۔"

وہ اس کو پیار سے پکارتے ہوئے بولا تھا مگر وہ شاید سن نہیں رہی تھی وہ مسلسل روہی تھی مومن نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو بری طرح جل رہاتھا اس نے اٹھنا چاہا کہ وہ کوئی میڈیسن دے دعا کو مگر دعا نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا تھا ۔وہ وہی لیٹ کر دعاپر آیات پڑھ کر دم کرنے لگا تھا جانے کب اس کی آنکھ لگ گی تھی ۔

#####

پاکستان اسلام آباد ائیر پورٹ کھڑی وہ کسی کو تلاش کررہی تھی جب وہ اس کو نظر آیا تھا ۔اس لڑکے کو دیکھ کر انجلی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑی تھی ۔ایک عجیب سی مسکراہٹ جس میں زہر تھا ،جو کسی کی ہنستی کھلیتی زندگی میں وہ گھولنے آئی تھی ۔

" کیا بات ہے کیا کہنے ہمیں مہمانی کا شرف بخشا ہے مس انجلی نے ۔"

وہ لڑکا اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا تھا ۔

"یہ اتنا اہم نہیں ہے اہم تو وہ ہے جو اب میں کروں گی ویسے مجھے  امید نہیں تھی تم مجھے  لینے آوگے۔"

انجلی نزاکت سے بولی 

"میں بھلا تمہیں لینے کیوں نا آتا مجھے تو آنا ہی تھا  بلایا بھی تو میں نے تھا اور ہاں صرف تم نے نہیں کرنا ۔۔۔۔۔جو کرنا ہے ہم دونوں نے مل کر کرنا ہے ۔"

اس کی بات سن کر انجلی نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔

"ٹھیک ہے جیسے تم کہتے ہو کرلیں گے مگر تمہیں میرا پورا ساتھ دینا ہوگا یاد رکھوجو تم حاصل کرنا چاہتے ہو وہ میری مدد کے بغیر ناممکن ہے اور جو میں حاصل کرنا چاہتی ہوں وہ میں کسی ناکسی طرح حاصل کرلوں گی ۔"

انجلی کی بات سن کر وہ ہنسنے لگا 

" اگر اتنی تم طرم خان ہوتی تو وہ اس وقت تمہارے ساتھ ہوتا ناکہ اس وقت وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کررہاہوتا"۔

اس کی بات سن کر انجلی دانت چبانے لگی وہ چاہتی تھی وہ کیسے بھی  کرکے اس کو اپنا بنا لے اور کہیں دور لے جائے  مگر وہ یہ سب کرنے سے قاصر تھی پہلی بازی وہ ہار گئی تھی اب وہ اپنے پتے ایسے کھلینا چاہتی تھی کہ جیت اس کا مقدر بن جائے یہ تو اس کی سوچ تھی مگر وہ نہیں جانتی وہ ایک ذات ہے جو سب کا مالک ہے وہی سب کا خالق ہے مالک ہے سب اس کے حکم سے ہوتا ہے انسان تو بس سوچتا ہے محض سوچ سکتا ہے کن سے فیکون کاسفر صرف اور صرف اس کے حکم کے تابع ہے۔

#####

ہمارے گناہ ہمارا پیچھا کرتے ہیں وہ کبھی  نہیں چھوڑتے" ہم اپنے گناہوں کی معافی کب اور کیسے مانگ سکتے ہیں "؟

رانیہ نے سوال کیا تو وہ مسکرانے لگا 

"تمہیں کس نے کہا گناہ پیچھا کرتے ہیں اگر سچے دل سے توبہ کرلی جائے تو وہ معاف کردیتا  اور ذات تو ہے رحمٰن  رحیم.  وہ تو اپنے کو معاف کردیتا ہے اگر وہ سچے دل سے توبہ کرتا ہےاور آئندہ گناہ نا کرنا کا وعدہ کرتا ہے۔"

"کیا تم مجھے  بتا سکتے ہو وہ کون کون سے گناہ معاف کرسکتا ہے ۔"؟

"سوائے شریک "

سنان نے مخصرسا کہا

"اس کے علاوہ سب معاف کردے گا جھوٹ اور کسی کے ساتھ برا کیا ہو کسی پر الزام لگایا ہو یا کسی ک زندگی خراب کرنے کی کوشش کی ہو"؟

رانیہ نے سوال کیا وہ بہت الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔سنان نے اس کو ایک نظر دیکھ اور بولا

"دیکھو رانیہ. ۔۔۔۔۔ انسان خطا کا پتلا ہے سب سے ہروز نجانے کتنے گناہ ہوجاتے ہیں کچھ  گناہ ایسے بھی  ہوجاتے ہیں جن کو ہم معمولی سی بات سمجھتے ہیں  جبکہ وہ معمولی بات ہرگز نہیں ہوتی ایسے ہی گناہ کی بھی  ایک سزا ہوتی ہے جو جلد یا بدیر ہمیں ملتی ہے کچھ  گناہ ایسے ہوتے جن کو الله تعالیٰ سے معاف کرایا جاسکتا ہے اور کچھ  کی سزا یقینی ہے جو دنیا یا آخرت میں ضرور ملنی ہے اس لیے توبہ کا کہا گیا ہے اوررہی بات کہ وہ کون سے گناہ کی کب معافی دے گا یہ تو وہ ذات خود ہی جانے  مگر انسان کو چاہے کہ وہ کسی انسان کی دل آزاری نا کرے کسی پرالزام نا لگاے کسی پر جھوٹ نا بولے، کسی پرتہمت نا باندھے ۔"

"اور کسی نے یہ سب کیا ہو تو وہ کیا کرے "؟

رانیہ نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا 

" تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ اس انسان سے معافی مانگے اور پھر الله سے کیونکہ یہ معاملہ حقوق الله کا حقوق العباد کا ہوجاتا ہے اس میں اس انسان کا معاف کرنا بہت معنی رکھتا ہے اور یاد رکھنا معافی مانگنے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور نا عزت رتبے میں کوئی فرق آتا ہے ۔معافی مانگا بڑے ظرف کی بات ہوتی ہے اس سے زیادہ بڑا ظرف اس کا ہوتا ہے جو معاف کردیتا ہے کیونکہ پھل صرف اس درخت کو لگتا ہے جو جھکتا ہے  اکڑنا تو مردے کا وصف ہے "۔

سنان کی باتیں سن کر رانیہ کو اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس ہوئی تھی وہ تیار تھی اپنے گزشتے رویوں اور گناہوں،خطاوں ،غلطیوں کی معافی مانگے کے لیے جس سے ناصرف اس کی بلکل مومن اور دعا کی زندگی تباہ ہوئی تھی ۔وہ خود تو برباد ہوگئی تھی مگر اب وہ مومن اور دعا کی زندگی میں سے ساری نفرت اور غلط فہمی دور کرنا چاہتی تھی جس کی وہ ذمہ دار تھی ۔


جاری ہے


Post a Comment

0 Comments